Font by Mehr Nastaliq Web

اتر پردیش کے شاعر اور ادیب

کل: 841

مختلف ماہناموں و ہفتہ وار کے سرپرست اور غزل گو شاعر

بہرائچ کی تاریخ مرتب کرنے میں سرگرم

اردو ادب کے نامور اور قادر الکلام شاعر

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

شاہ اکبر داناپوری کے شاگرد رشید

حاجی وارث علی شاہ کے چہیتے مرید جنہوں نے پیرومرشد کے حکم پر جنگل میں زندگی گذاری

معروف ادیب و شاعر

’’میں وہ سنی ہوں جمیلؔ قادری مرنے کے بعد‘‘ کے لیے مشہور

جمیل احمد جمیل مرصع پوری 15؍ جولائی 1931ء کو پریاواں کے ایک گاؤں مرصع پور میں پیدا ہوئے جو پرتاب گڑھ میں مانک پور سے قریب ہے۔ مدرسہ اسلامیہ مرصع پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کے استاد انجم فوقی بدایونی تھے۔ ملک کے سرکردہ شعراء نے ان کے زمانے میں ان کی طرح ممبئی کا رخ کیا۔ شکیل، مجروح اور علامہ آرزو لکھنوی کی صحبت ملی۔ جس میں ان کا شاداب ہونا ضروری تھا ان دنوں 72سال کے ہونے کے باوجود شعر گوئی ترک نہیں کی۔ آج بھی ممبئی کی ادبی محفلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ حال ہی میں جمیل صاحب کا شعری مجموعہ ’’بے نام سی خوشبو‘‘ شائع ہوا۔ انہوں نے اپنے کلام کا انتخاب شائع کیا ہے۔ مختصر ہی سہی مجموعے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا پیش لفظ اردو ادب کے ممتاز شاعر قیصرالجعفری اور محقق و ناقد پروفیسر مجاہد حسین حسینی نے لکھا ہے۔ ان کی سچی اور کھری شاعری کا اعتراف انجم صاحب نے بھی اپنی تحریر میں کیا ہے۔ جمیل مرصع پوری کی شاعری تکلف اور تصنع سے بھی پاک ہے جیسے وہ خود ہیں۔ جمیل احمد جوانی میں بہت خوبصورت تھے۔ ہمیشہ چہکتے رہتے تھے۔ اس وجہ سے دوستوں میں اکثر ان کے حاسد تھے۔ بڑے شعراء کے درمیان ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا اس لئے بھی سرخرو تھے۔ چھوٹے بڑے سب سے اخلاص و محبت سے ملتے ہیں۔ مشاعرے اور ادبی پروگرام کراتے رہتے ہیں۔ ہر سال علامہ اقبال کی برسی مناتے ہیں۔ جس میں ممبئی اور اس کے اطراف کے بڑے بڑے شعراء اور ادباء شرکت کرتے ہیں۔ آوارہ سلطان پوری کے پڑوسی اور دوستوں میں تھے۔ جمیل مرصع پوری کہتے ہیں: ’’اردو کی ترقی کے لئے جدوجہد کرنا بڑا اہم کارنامہ ہے ورنہ اس عمر میں تو عموماً تھک ہار کر سوجاتے ہیں‘‘۔ پیشے کے اعتبار سے بھی وہ فن کارڈیزائنر ہیں۔ اب زیادہ عمر کی وجہ سے اپنا کام نہیں کر پاتے ہیں۔ ندیم صدیقی ان کے صاحبزادوں میں سے ہیں۔ جو ادبی دنیا میں کافی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ شکیل بدایونی سے کافی قریب رہے شکیل کی غریبی کا زمانہ بھی جمیل صاحب کو اچھی طرح یاد ہے۔ آج بھی مشاعرے میں پڑھتے ہیں اور نئی نسل کے شعراء ان کے اشعار بڑے احترام سے سنتے ہیں اور داد دیتے ہیں کیوں کہ انہوں نے زمانے کے ساتھ چلنا سیکھا ہے۔

نہایت خوش فکر اور خوش گو شاعر

جمال

1568 - 1593

دوہے کہنے کے لئے مشہور

داغ دہلوی کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعرا

بہترین نظم گو شاعر

مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ شاہ جہاں کی صاحبزادی اور صوفی خاتون، مصنفہ و شاعرہ

خانوادہ انیسؔ کے معروف شاعر شدید لکھنوی کے شاگرد

غزل گو شاعر

بولیے