Font by Mehr Nastaliq Web

اتر پردیش کے شاعر اور ادیب

کل: 841

حلیم مسلم کالج، کانپور میں بحیثیت مدرس اور معروف صوفی شاعر

بوستان نوابی کے گل سرسبد، دور حاضر کے جدت طراز نعت گو شاعر

داغ دہلوی کے ممتاز شاگرد

ہندوستان کے ممتاز صوفی اور امیر خسرو کے پیرو مرشد

ممتاز ترین علمی اور ادبی شخصیت۔ شاعری، فکشن اور تراجم کے علاوہ علمی نوعیت کی کئی اہم کتابیں تصنیف کیں۔ اپنے وقت کے مقبول ادبی جریدے ’نگار‘ کے مدیر رہے۔

بیدم وارثی کے استاد محترم اور حضرت شاہ اکبر داناپوری کے ممتاز مرید و خلیفہ اور نامور شاگرد

معروف اسکالر اور صوفی علوم کے لئے مشہور

سہسوان کے معروف ادیب، مضمون نگار اور شاعرِ مشاق

مختلف علوم و فنون کے ماہر اور بہترین شخصیت کے مالک

سید حیدر علی نام، نظمؔ تخلص، 1853ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بہت محنت اور توجہ سے تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی ہی میں علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگان اودھ کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ شاہ اودھ معزول کر کے کلکتہ بھیجے گئے تو یہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ کلکتہ کے مٹیا برج میں قیام رہا۔ وہاں شہزادوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک عالم سے خود بھی علم حاصل کرتے رہے۔ واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد نظام کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کرنے کے بعد وظیفہ کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کے بعد وظیفہ یاب ہوئے اور ولی عہد کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ حسن کارکردگی کے صلے میں سرکار نظام کی جانب سے نواب حیدر یار جنگ کا خطاب عطا ہوا۔ اسی اثنا میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور دارالترجمہ قائم ہوا۔ ارباب اختیار نے نظمؔ کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے خیال سے ادبی ناظر کی حیثیت سے ان کی خدمات حاصل کیں۔ ذمہ داری یہ کہ نظمؔ تراجم پر نظر ثانی کرتے اور ان کی نوک پلک سنوارتے۔ 1933ء میں ان کا انتقال ہوا۔ مرتے دم تک وہ اردو شعروادب کی خدمت کرتے رہے۔ نظمؔ نے اردو میں نئے انداز کی نظمیں لکھیں اور اس سے بڑھ کر ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انگریزی نظموں کے انہوں نے ایسے دلکش ترجمے کیے کہ ان پر ترجموں کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ سب سے مشہور ترجمہ گرے کی نظم کا ہے۔ گرے نے ان مرنے والوں کا درد ناک مرثیہ لکھا ہے جو گمنام جیے اور گمنام مرگئے۔ نظمؔ نے مرثیے کا اردو میں ترجمہ کیا اور’گورغربیاں‘ نام دیا۔ اردو میں کوئی اور ترجمہ نہ اس پائے کا موجود ہے، نہ کسی ترجمے نے اتنی شہرت پائی۔ نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے؎ وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا یہ دیرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے ان کی زبان سادہ ہے مگر اس سادگی میں غضب کی دلکشی ہے۔ نظم کی تشبیہیں اور استعمارے بھی بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے قصیدے بھی لکھے اور ان میں جدت پیدا کی۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

ممتاز شاعر، جنہوں نے ہندوستانی ثقافت اور تہواروں پر نظمیں لکھیں، ہولی، دیوالی اور دیگر موضوعات پر نظموں کے لئے مشہور

دھول پور کے نواب ، شاعر، مصنف اور حضرت شاہ اکبر داناپوری کے مرید و مجاز

لکھنو کے معروف ادیب، شاعر اور مصنف

مختلف زبان کے عالم اور افقر موہانی کے شاگرد

خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید اور جانشین

خانقاہ سراجیہ، بنارس کے سجادہ نشیں اور ممتاز محقق و دانشور

خانقاہ نیازیہ بریلی شریف کے معروف صوفی شاعر

مختلف فکر و فن کے لئے مشہور

عہد حاضر کا نوجوان شاعر

محسن کاکوروی کے صاحبزادے اور شاگرد

رسالہ ’’عروض و قافیہ‘‘ کے مصنف جس کی بڑی شہرت تھی۔

’’صدرالافاضل‘‘ کے نام سے مشہور

حاجی وارث علی شاہ کے مرید و خادم خاص

بولیے