حضرت سید حسن جی
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-38
حضرت سید حسن جی مقتدائے اہلِ بصیرت تھے۔
خاندانی حالات : آپ کا سلسلۂ نسب امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کا سلسلۂ نسب غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملتا ہے۔
والد : آپ کے والدِ ماجد کا نام سید فتح اللہ ہے اور سید حسین بھی بتایا جاتا ہے، ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ 971 ہجری میں زیارتِ حرمین شریف کے لیے روانہ ہوئے، حج میں ابھی کچھ دن باقی تھے کہ مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور دربارِ رسالت پناہ میں نذرانۂ خلوص بہ صد احترام پیش کیا، انہوں نے نہایت عاجزی و انکساری سے دعا مانگی۔
”حضور ! مجھے اپنے دیدار سے مشرف فرمائیں“
آنکھ ہوئی، نیند کا غلبہ ہوا تو خواب میں سرورِ عالم کی زیارت سے مشرف ہوئے، اس وقت انہوں نے التجا کی مجھے دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائیے، حکم ہوا کہ پہلے حج کرو، پھر سفر کرو، طواف کرتے وقت غنودگی طاری ہوئی اور ان کو خواب میں حکم ہوا کہ اب جاؤ سفر کرو، وہ بغداد پہنچے اور غوث الاعظم اور حضرت عبدالوہاب کے مزار پر حاضر ہوئے، حکم پاکر ہندوستان کا رخ کیا، ہندوستان پہنچ کر ایک گاؤں میں جس کا نام پتھری ہے اور جو احمد نگر کے قریب ہے قیام کیا، سلطان بہادر شاہ گجراتی قدم بوس ہوا، گجرات کے بادشاہ کی درخواست پر احمدآباد تشریف لائے اور احمدآباد میں آپ کا وصال ہوا۔
والدہ : آپ کی والدہ ماجدہ حضرت امیر خسرو کی اولاد سے تھیں، ان کا نام امۃ الاسلام تھا۔
ولادت : آپ 968 ہجری میں پٹن میں پیدا ہوئے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ بغداد میں پیدا ہوئے۔
نام : آپ کا نام سید حسن ہے۔
خطاب : آپ کا خطاب علامہ ہے، آپ کو لوگ علامہ کے خطاب سے اس وجہ سے پکارتے تھے کہ آپ اپنے زمانہ کے ایک جلیل القدر عالم تھے۔
تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے والد کی نگرانی میں ہوئی پھر دیگر علما سے آپ نے فارسی اور عربی زبان میں مہارت حاصل کی، علمِ تصوف اور علمِ حدیث میں آپ نے جلد ہی دستگاہ حاصل کی۔
سورت میں آمد : دین کی خدمت کا شوق آپ کو ہندوستان لایا، اپنے بڑے بھائی سید مخمور کے ساتھ سورت تشریف لائے اور سورت میں رہنے لگے اور سورت ہی کو رشد و ہدایت کا مرکز بنایا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ والد کے انتقال کے بعد احمدآباد سے سورت آئے، سورت آکر سید ابوبکر ایدروس کی خانقاہ میں قیام کیا۔
بیعت و خلافت : آپ کے ملفوظات حضرت شیخ والی اللہ بن شیخ ابراہیم نے ایک کتابی صورت میں جمع کرکے اس کا نام ”اتحادِ احسن“ رکھا، آپ حضرت شیخ مولانا فضل اللہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، حضرت مولانا فضل اللہ برہان پور سے مکہ معظمہ جانے کے لیے سورت تشریف لائے ہوئے تھے، سورت اس زمانہ میں بندرگاہ تھا اور جو لوگ حج کو جاتے تھے وہ سورت بندرگاہ سے جاتے تھے، وہ جب سورت تشریف لائے تو آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرید ہوئے، حضرت مولانا حج کو چلے گئے اور جب واپس ہوئے تو آپ ان کے ہمراہ سورت سے برہان پور گئے اور وہاں اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں رہ کر اپنے پیر و مرشد سے علومِ باطنی کی تعلیم پائی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت سید محمد ایدروس کے حلقۂ ارادت میں بھی داخل ہوئے اور ان سے خرقۂ خلافت پایا، جب 1030 ہجری میں ان کی وفات ہوئی تو آپ نے ان کی وفات کی تاریخ لکھی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو حضرتِ ابوبکر ایدروس سے بھی خرقۂ خلافت ملا۔
آپ نے شطاریہ سلسلے کے حضرت عین الوفا شاہ جنداللہ برہان پوری سے بھی روحانی فیض پایا، وہ شاہ شکر محمد شطاری کے خلیفہ تھے، اس کے علاوہ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ آپ نے حضرت مولانا شاہ محمد فضل اللہ برہان پوری سے اپنی روحانی امانت حاصل کی۔
روحانی فیوض : آپ حضرت خواجہ دانا اور حضرت خواجہ محمد ویہدار کے روحانی فیض سے بھی مستفیض ہوئے، حضرت شاہ وجیہ الدین اور حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری کی روحِ پُرفتوح سے بھی فیضیاب ہوئے۔
سورت میں قیام : آپ کا سورت میں قیام خاص و عاد کے لیے باعثِ برکت تھا، لوگ حاجب براری کے لیے آپ کی خدمت میں آتے تھے اور گلِ مقصد سے دامن بھر کر چلے جاتے تھے، رشد و ہدایت آپ کا محبوب مشغلہ تھا، کفر و شرک سے لوگوں کو نجات دلانے کے لیے کوشاں رہتے تھے، بدعت اور غیر اسلامی رسومات کے سخت مخالفت تھے اور لوگوں کو ان کی غلامی سے آزاد کرانا چاہتے تھے، جو لوگ سورت بندرگاہ سے حج کو جاتے تھے، ان کو ہر طرح کا آرام اور سہولت پہنچانے کی کوشش کرتے، سورت کو باب المکہ بھی اس زمانے میں کہتے تھے۔
اولاد : آپ کے چار لڑکے ہوئے یعنی مولانا سید احمد، مولانا سید مصطفیٰ، مولانا سید محمد اور سید مجتبیٰ، مولانا سید احمد، مولانا سید مصطفیٰ اپنے والدِ ماجد کو داغِ مفارقت دے گئے، سید مجتبیٰ کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔
وفات : آپ 4 ذیقعدہ 1062 ہجری کو اپنے معبودِ حقیقی سے جا ملے، اس وقت آپ کی عمر 94 سال کی تھی، مزار سورت میں ہے، آپ کا عرسِ مبارک ہر سال پابندی سے ہوتا ہے۔
سیرت : آپ کی زندگی نہایت سادہ تھی، قناعت آپ کا شعار تھا، توکل آپ کا بے مثال تھا، عبادت و ریاضت و مجاہدات میں جو روحانی لذت پاتے تھے، اس کی وجہ سے ہر وقت ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی۔
رشد و ہدایت اور تعلیم و تلقین کو ایک فریضہ سمجھتے تھے اور خدمتِ خلق کی ایک دوسری صورت سمجھتے تھے، اندھے کو راسہ دکھانا خداوندِ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہے،
سید اور سید زادے کا بے حد احترام کرتے تھے، ان سے کسی قسم کا کوئی کام نہ لیتے تھے اور پیروں اور پیر زادوں کی بھی بہت عزت کرتے تھے، انکساری کا یہ عالم تھا کہ خود کو سید نہ کہتے تھے جو لوگ حج کو سورت ہوتے ہوئے جاتے تھے، آپ ان کو ہر طرح کا آرام و آسائش مہیا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کی خدمت میں کوئی دریغ نہ کرتے تھے، سلطانِ گجرات کے کان تک جب یہ خبر پہنچی تو بادشاہ نے خوش ہوکر یہ حکم دیا کہ ان کو جتنی زمین کی ضرورت ہو دے دو، اس زمین کا ان کو اختیار ہے وہ جو چاہیں سو کریں، آپ سے جب عرض کیا گیا اور سلطانِ گجرات کے حکم سے آپ کو مطلع کیا گیا تو آپ نے معذرت چاہی اور فرمایا کہ
”مجھے اس سے معذور رکھو، یہ دنیا کے جھگڑے ہیں، زمین، زن اور زر فساد اور جھگڑے کے باعث ہوتے ہیں، دنیادار تو ان کا شیفتہ اور فریفتہ ہوجاتا ہے لیکن پھر دکھ اٹھاتا ہے اور رنج و غم میں مبتلا ہوتا ہے، میں تو دنیادار نہیں ہوں اور نہ میری نگاہ میں ان چیزوں کی کوئی قیمت یا وقعت ہے، ایک درویش کو زمین سے کیا واسطہ اور بادشاہ کی جاگیر سے کیا تعلق“
بہت اصرار کرنے پر آپ اس بات پر رضا مند ہوئے کہ جتنی زمین پر لکیر کھینچوں اتنی ہی زمین مجھے نہیں بلکہ بندگانِ خدا کو دے دی جائے، چنانچہ جتنی زمین پر آپ نے لکیر لگائی سلطان نے اتنی ہی زمین دے دی، وہ زمین وقف کی گئی، آپ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اس جگہ بہت سے لوگ آئیں گے اور آرام کریں گے، ایسا ہی ہوا، آپ کے قبرستان میں حضرت سید کمال الدین، حضرتِ پیر مراد شاہ، حضرت شیخ عبداللہ گمان پیر ابدی نیند میں محو ہیں۔
اکلِ حلال : عبدت و ریاضت، ذکر و فکر اور اوراد و وظائف سے جو وقت بچتا اس میں خوش خطی کرتے اور جو کچھ ملتا اس پر اکتفا فرماتے، فتوحات جو ہوتیں وہ اسی دن تقسیم فرما دیتے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ توکل کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ کل کے متعلق سوچے۔
شعر و شاعری : آپ شاعر بھی تھے، کئی ہزار اشعار لکھے ہیں، کچھ اشعار تو سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہیں اور کچھ اشعار اہلِ بیت کی شان میں لکھے ہیں۔
آپ نے شاعری کے ذیعہ اپنا پیغام پہنچایا اور وہ اس طرح کہ آپ کے اشعار حقیقت کا اظہار کرتے ہیں، دنیا کی بے ثباتی پر جو آپ نے اشعار لکھے ہیں وہ اتنے دردناک ہیں کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے تو ضرور ہی دنیا سے متنفر ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ آپ نے ایک خمسہ خواجہ نظام الدین اؤلیا کی شان میں اور ایک خمسہ حضرت امیر خسرو کی شان میں لکھا ہے۔
ایک رسالہ بارہ اماموں کی شان میں لکھا ہے، اس رسالہ کا نام ”ہزار بیت“ ہے، اس رسالہ میں آپ نے بارہ اماموں کے فضائل اور ان کے کشف و کرامات کے حالات لکھے ہیں، اپنے دو اور مجموعوں میں یعنی ”مولودالنبی“ اور ”برہانِ ہندی“ میں آپ نے پانچ ہزار وجد آفریں اشعار لکھے ہیں۔
آپ کا کلام فصاحت التیام آپ کے دل کی پکار ہے اور آپ کے عشقِ نبی، عشقِ اہلِ بیت اور عشقِ بارہ امام کا آئینہ دار ہے اور بعض بزرگانِ دین سے آپ کی گہری نسبت ظاہر کرتا ہے، آپ کا کلام اخلاقی تعلیم، تصوف کے نکات، شریعت کے احکام، طریقت کے اصول اور معرفت کے رموز سے بھرا ہوا ہے، آپ کی ایک نعت بہت مشہور ہے، ان اشعار میں جو آپ نے حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں لکھ کر اپنا حقیر نذرانہ دربارِ رسالت میں پیش کیا ہے کوئی نکتہ نہیں ہے، اس نعت کا ایک شعر ذیل میں پیش کیا جاتا ہے، اس نعت میں کمال یہ ہے کہ وہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو نکتہ سے مبرا ہیں، جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے۔
محمد آمد اسلام کرد در عالم
علومِ آمد ہمراہِ او عدل و کرم
تعلیمات : آپ نے فرمایا کہ
”دنیا ایک جال ہے جو اس جال میں پھنسے گا آخر کو پریشان ہوگا“
آپ نے فرمایا کہ
”خدمتِ خلق بڑی چیز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ خدمت خلوص سے کی جائے نہ کہ کسی غرض سے، خدمت اور غرض کے ساتھ؟ وہ خدمت نہیں بلکہ ایک تجارت ہے“
آپ نے فرمایا کہ
”لوگ نادان ہیں، وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ دنیا چند روزہ ہے، دنیا دار دنیا کو چند روزہ نہیں سمجھتے اسی لیے تگ و دو میں لگے رہتے ہیں اور برسوں کے انتظام کرتے ہیں“
آپ نے فرمایا کہ
”دنیا فانی ہے، اس سے دل لگانا نادانی ہے، دنیا کی زیب و زینت عارضی ہے، دنیا کے جاہ و منصب پر فخر کرنا بے وقوفی ہے“
آپ نے فرمایا کہ
”سیدوں کا مرتبہ بلند ہے، ان کی عزت کرنا فرض ہے اور حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا باعث ہے“
آپ نے فرمایا کہ
”درویش حقیقت میں وہی شخص ہے جو کسی سے غرض نہ رکھے، درویش وہ ہے جو سب کی حاجت براری کرتا ہے، نہ احسان جتاتا ہے اور نہ معاوضہ طلب کرتا ہے‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.