ریان ابوالعلائی کے صوفیانہ مضامین
نصرت فتح علی خان
’’سہرا یہ حقیقت کا نصرتؔ کو سنانے دو‘‘ نصرت فتح علی خاں پاکستان کے بڑے قوال، موسیقار، موسیقی ڈائریکٹر اور بنیادی طور پر قوالی کے گلوکار تھے، نصرت کو اردو زبان میں صوفی گلوکار اور جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے قوالی کے گلوکار کے طور پر جانا جاتا ہے، انہوں
ذکرِ خیر حضرت بہلول قادری نظام آبادی
برصغیر کے روحانی نقشے پر نظام آباد (دکن) کی درگاہِ حضرت سید امان اللہ حسینی ایک درخشندہ چراغ کی مانند رہی ہے، اسی عظیم روحانی سلسلے کے چشم و چراغ، متواضع اور باکمال بزرگ عارف الحق حضرت سید بہلول طبقاتی قادری نظام آبادی تھے، جن کی زندگی تقویٰ، علم، فقر،
درگاہیں: روح کی پناہ گاہیں یا بازار کی رونق؟
دنیا کی تھکی ہوئی روحوں کے لیے درگاہیں ہمیشہ سے ایک ایسا سایہ دار شجر رہی ہیں جہاں محبت، امن اور بھائی چارے کی ٹھنڈی چھاؤں میسر آتی تھی، جب زندگی کے تھپیڑے تھکا دیتے تھے، جب حسرتیں آنکھوں میں تیرتی تھیں اور دل غم کے بوجھ تلے دب جاتا تھا، تب لوگ کسی درگاہ
تذکرہ شیخ محمود آفندی
اوستاؤ سمان اوغلو (1929 - 2022) جن کو عام طور پر شیخ محمود آفندی کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کے شاگردوں میں حضرتلری آفندی کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ترک صوفی اور سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ خالدیہ کے بااثر اور جامعہ اسماعیلہ کے رہنما تھے۔ محمود آفندی
ذکر خیر حضرت سید محمد تاج الدین ناگپوری
برصغیر کی روحانی تاریخ میں حضرت سید محمد تاج الدین ناگپوری (1861ء - 1925ء) ایک غیر معمولی اور بلند مرتبہ بزرگ گزرے ہیں، جنہوں نے مہاراشٹر کی سرزمین، بالخصوص ناگپور کو روحانی نور سے منور کیا، آپ نے رشد و ہدایت، اخوت و محبت اور انسان دوستی کا ایک ایسا
ذکر خیر حضرت شاہ علی ارشد شرفی
بہار کی سرزمین اپنی زرخیزی، علمی وراثت اور روحانی سرمایہ کے لیے معروف ضرور ہے مگر اپنی شہرت اور وسعت کے اعتبار سے ابھی تک دنیا کی توجہ سے محروم رہی ہے، اس کی ایک روشن مثال حضرت مخدومِ جہاں، شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ہیں، جنہیں شیخ الاسلام والمسلمین
حضرت شاہ اکبر داناپوری کا تاریخی سفر حج
عرب اس ملک کا نام ہے جو ایک جزیرہ نُما کی صورت میں واقع ہوا اور ہمارے داناپور سے سیدھا مغرب کی طرف ہے اس کی زمین پتھریلی اور ریگستانی ہے اس میں پہاڑ بہت ہیں مگر بلند نہیں خصوصا ً اس ملک میں تین ایسے شہر ہیں جس میں سوائے مسلمانوں کے دوسرا کوئی مذہب نہیں۔ (۱)
لکھنؤ کا سفرنامہ
لکھنؤ کے متعلق برج نرائن چکبستؔ نے بہت پہلے ایک ایسا شعر کہا تھا جو آج بھی اس شہر کے ماضی کی دھندلی مگر پررونق تصویر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے۔ زبانِ حال سے یہ لکھنؤ کی خاک کہتی ہے مٹایا گردشِ افلاک نے جاہ و حشم میرا یہ شعر صرف ایک جملۂ ماتم نہیں