Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

جتنا کمی کہ نامہ سیاہی میں رہ گئی

امیر مینائی

جتنا کمی کہ نامہ سیاہی میں رہ گئی

امیر مینائی

جتنا کمی کہ نامہ سیاہی میں رہ گئی

اتنی ہی دیر عضوِ آلہی میں رہ گئی

حسرت نہیں وطن کی تباہی میں رہ گئی

کچھ گرد تھی کہ دامنِ راہی میں رہ گئی

صد شکر عفو میرے گنہ حشر میں ہوئے

حرست گدا کی مجلسِ شاہی میں رہ گئی

آنکھ اس نے پھیر لی تو کہاں پھر ہماری زیست

آدھی تو جان نیم نگاہی میں رہ گئی

تھی زار کوئے یار میں کیا جاتی اپنی خاک

اتنی تھی کم کہ اڑ کے ہوا ہی میں رہ گئی

دی بھی تو قد یار کو طوبی سے دی مثال

پستی مری بلند نگاہی میں رہ گئی

دیکھو تعلیان مری قندیل آہ کی

کیسی لٹک کے عرش الٰہی میں رہ گئی

ڈوبے ہوئے نصیب نہ اچھلے کسی طرح

کشتی ابھر ابھر کے تباہی میں رہ گئی

بخت یہ ہے آنکھیں نہ اس سے ہوئیں دو چار

چونک چمک چمک کے سیاہی میں رہ گئی

پردے سے اس کی ذات کو کیا کام تھا امیرؔ

چھپ کر صفاتِ نامتنا ہی میں رہ گئی

مأخذ :

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے