Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خودی سے بے خودی میں آ جو شوق حق پرستی ہے

امیر مینائی

خودی سے بے خودی میں آ جو شوق حق پرستی ہے

امیر مینائی

خودی سے بے خودی میں آ جو شوق حق پرستی ہے

جسے تو نیستی سمجھا ہے اے غافل وہ ہستی ہے

کہیں زائد کہیں کم بادۂ عرفاں کی مستی ہے

بقدر وسعت مشرب مقام مے پرستی ہے

ترے قربان اے مرگ غریبی جلد اب لے چل

وطن کے دیکھنے کو روح مدت سے ترستی ہے

غضب کے جوش میں ہے دختر رز خیر ہو ساقی

بھری بیٹھی ہے دیکھا چاہیے کس پر برستی ہے

دل ویراں کو میرے دیکھ کر کہتی ہے ویرانی

خدا آباد رکھے اس کو کیا دلچسپ بستی ہے

نہ شاخ گل ہی اونچی ہے نہ دیوار چمن بلبل

تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے

نہ گھبرا اے دل واماندہ اب منزل قریب آئی

اسی بستی کے آگے اور آباد ایک بستی ہے

نہ ہو جو آپ ہی میں اس سے پھر پاس ادب کیسا

تکلف بر طرف ساقی کی وقت جوش مستی ہے

نگاہ ناز خال رخ سے میدان محبت میں

ستم کے تیر پڑتے ہیں غضب گولی برستی ہے

جدا ہم اور دست غیر و زلف دلبر و شانہ

خدا کی شان جو پسپا تھے ان کو پیش دستی ہے

خدا جانے ترا جی لگ گیا دنیا میں کیوں اے دل

اجاڑ اک چند گھر ہیں بے حقیقت سی یہ بستی ہے

قدم جس خاک پر پڑتا ہے تیرے خاک ساروں کا

اگر اکسیر کے مولوں وہ ہاتھ آئے تو سستی ہے

بلائیں لیتے لیتے مست ہو جاتی ہے مشاطہ

وہ چوٹی ارگجے کے عطر میں جس وقت بستی ہے

رہیں کیونکر نہ گرد اس روئے آتش رنگ کے گیسو

عبادت ہندوؤں کے دین میں آتش پرستی ہے

نہیں بچتا ہے دل پر داغ تیری زلف پیچاں سے

یہ وہ ناگن ہے جو طاؤس کو اڑ اڑ کے ڈستی ہے

امیرؔ آتی ہے یہ آواز ناقوس برہمن سے

بت پندار کو توڑو جو شوق بت پرستی ہے

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے