Font by Mehr Nastaliq Web

اک عمر ہو گئی کہ اقامت سفر میں ہے

امیر مینائی

اک عمر ہو گئی کہ اقامت سفر میں ہے

امیر مینائی

اک عمر ہو گئی کہ اقامت سفر میں ہے

نقشہ مگر وطن کا ابھی تک نظر میں ہے

جو خون ابل چلے وہ مری چشم تر میں ہے

جو داغ رنگ لائے وہ میری جگر میں ہے

دن رات یاد ہے در دندان یار کی

کشتی ہماری عمر کی آب گہر میں ہے

ہم ہیں برنگ لالہ ازل سے الم نصیب

جزو بدن ہے داغ جو اپنے جگر میں ہے

اے بحر حسن دیکھ تڑپ انتظار کی

مچھلی ہے مردمک جو مری چشم تر میں ہے

نیرنگیاں تصور کامل کی دیکھیے

تصویر یار دل میں ہے نقشہ نظر میں ہے

مرتا ہے اس پہ غیر بھی تو میں ہوں بے قرار

دشمن کے دل کا داغ بھی میرے جگر میں ہے

دنیائے بے ثبات میں کیا ہو ہمیں ثبات

جس گھر میں ہم مقیم وہ گھر ہی سفر میں ہے

قاتل ابھی سوار بھی گھر سے نہیں ہوا

کشتوں کا ڈھیر چار طرف رہ گزر میں ہے

رکھتا نہیں زمین پہ مارے خوشی کے پاؤں

شاید جواب خط کمر نامہ بر میں ہے

یارب امیرؔ کے بھی گناہوں سے درگزر

یہ بھی تو آخر امت خیرالبشر میں ہے

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے