او صنم تیرے نہ آنے کی قسم کھاتا ہوں میں
او صنم تیرے نہ آنے کی قسم کھاتا ہوں میں
اس دل بیتاب کو دن رات سمجھاتا ہوں میں
کیسی آنکھیں پھیر لیں انجان کیسے بن گئے
دیکھ کر ان کی طرف حیران ہو جاتا ہوں میں
دور ہوتے ہوتے آخر دور اتنے ہو گئے
دل میں رکھ کر پھر بھی ان کو دور ہی پاتا ہوں میں
آپ اپنی آنکھ سے آکر کسی دن دیکھ لیں
ابر نیساں کی طرح برسات برساتا ہوں میں
جب کہ ملنے کی کوئی صورت نظر آتی نہیں
لے کے پھر تصویر ان کی دل کو بہلاتا ہوں میں
کیا کروں اس کے سوا کچھ اور تو ہوتا نہیں
یاد جب آتے ہیں وہ آنسو بہا لیتا ہوں میں
وہ گلے شکوے گئے وہ پیار کی باتیں گئیں
اب تو ان کو دور سے ہی دیکھتا رہتا ہوں میں
رسم الفت توڑ کر قطع تعلق کر لیا
ایسے لوگوں سے محبت کر کے پچھتاتا ہوں میں
کیا کہوں کس سے کہوں اب کون سنتا ہے مری
جس طرف بھی دیکھتا ہوں غیر ہی پاتا ہوں میں
کچھ تو بتلا دے ذرا آخر معمہ ہے یہ کیا
سامنے آتے ہیں وہ بے چین ہو جاتا ہوں میں
اس چمن کی ہر کلی ہر پھول ہر ہر رنگ میں
حسن مطلق کا کرشمہ دیکھتا جاتا ہوں میں
یاد رفتہ دل میں لے کے اس کی بزم ناز میں
دل دبائے سر جھکائے یوں چلا جاتا ہوں میں
خوب ہی اچھا کہا مشتاقؔ جس نے یہ کہا
بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں
- کتاب : اسرارالمشتاق
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.