Font by Mehr Nastaliq Web

او صنم تیرے نہ آنے کی قسم کھاتا ہوں میں

غلام معین الدین گیلانی

او صنم تیرے نہ آنے کی قسم کھاتا ہوں میں

غلام معین الدین گیلانی

او صنم تیرے نہ آنے کی قسم کھاتا ہوں میں

اس دل بیتاب کو دن رات سمجھاتا ہوں میں

کیسی آنکھیں پھیر لیں انجان کیسے بن گئے

دیکھ کر ان کی طرف حیران ہو جاتا ہوں میں

دور ہوتے ہوتے آخر دور اتنے ہو گئے

دل میں رکھ کر پھر بھی ان کو دور ہی پاتا ہوں میں

آپ اپنی آنکھ سے آکر کسی دن دیکھ لیں

ابر نیساں کی طرح برسات برساتا ہوں میں

جب کہ ملنے کی کوئی صورت نظر آتی نہیں

لے کے پھر تصویر ان کی دل کو بہلاتا ہوں میں

کیا کروں اس کے سوا کچھ اور تو ہوتا نہیں

یاد جب آتے ہیں وہ آنسو بہا لیتا ہوں میں

وہ گلے شکوے گئے وہ پیار کی باتیں گئیں

اب تو ان کو دور سے ہی دیکھتا رہتا ہوں میں

رسم الفت توڑ کر قطع تعلق کر لیا

ایسے لوگوں سے محبت کر کے پچھتاتا ہوں میں

کیا کہوں کس سے کہوں اب کون سنتا ہے مری

جس طرف بھی دیکھتا ہوں غیر ہی پاتا ہوں میں

کچھ تو بتلا دے ذرا آخر معمہ ہے یہ کیا

سامنے آتے ہیں وہ بے چین ہو جاتا ہوں میں

اس چمن کی ہر کلی ہر پھول ہر ہر رنگ میں

حسن مطلق کا کرشمہ دیکھتا جاتا ہوں میں

یاد رفتہ دل میں لے کے اس کی بزم ناز میں

دل دبائے سر جھکائے یوں چلا جاتا ہوں میں

خوب ہی اچھا کہا مشتاقؔ جس نے یہ کہا

بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں

ویڈیو
This video is playing from YouTube

Videos
This video is playing from YouTube

نصرت فتح علی خان

نصرت فتح علی خان

مأخذ :
  • کتاب : اسرارالمشتاق

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے