عاشق یارم مرا با کفر و با ایماں چہ کار
عاشق یارم مرا با کفر و با ایماں چہ کار
تشنۂ دردم مرا با وصل و با ہجراں چہ کار
میں تو یار کا عاشق ہوں، مجھے کفر، اور ایمان سے کیا کام؟
میں درد کا پیاسا ہوں، مجھے وصل،اور ہجر سے کیا کام؟
کشتۂ عشقم مرا از شحنۂ دوراں چہ غم
مفلس عورم مرا با زمرۂ دیواں چہ کار
میں عشق کا مقتول ہوں، مجھے زمانہ کے کوتوال کا کیا غم؟
میں ننگا مفلس ہوں، میرا دفتر والوں سے کیا کام؟
قبلۂ و محراب من ابروئے دل دار است و بس
ایں دل شوریدہ را بایں چہ و با آں چہ کار
میرا قبلہ، اور محراب بس دلدار کی ابرو ہے
اس دیوانہ دل کو اِس، اور اُس سے کیا کام؟
صورت مرداں چہ خواہی سیرت مرداں گزیں
مرد عاشق پیشہ را با صورت ایواں چہ کار
تو مردوں کی صورت کیا چاہتا ہے، مردوں کی عادت اختیار کر
عاشق پیشہ انسان کو، محل کی تصویر سے کیا کام؟
چوں کہ اندر ہر دو عالم یار می باید مرا
با بہشت و دوزخ و با حور و با غلماں چہ کار
چوں کہ دونوں جہانوں میں، مجھے یار چاہیے
بہشت اور دوزخ اور حور، اور غلمان سے کیا کام؟
ہر کہ از خود شد مجرد در طریق عاشقی
از غم و دردش چہ آگاہی و با درماں چہ کار
جو عشق کے راستہ میں، اپنے وجود ہی سے جدا ہو گیا
اس کو درد اور غم سے کیا واقفیت، اور علاج سے کیا کام؟
حافظاؔ گر عاشق و مستی دگر رہ باز گو
عاشق یارم مرا با کفر و با ایماں چہ کار
اے حافظ اگر تو عاشق اور مست ہے دوبارہ کہہ
میں یار کا عاشق ہوں، مجھے کفر اور ایمان سے کیا کام؟
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 164)
- مطبع : نورالحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.