Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

نشاں بر صفحۂ ہستی نبود از عالم و آدم

مخدوم سعدالدین خیرآبادی

نشاں بر صفحۂ ہستی نبود از عالم و آدم

مخدوم سعدالدین خیرآبادی

نشاں بر صفحۂ ہستی نبود از عالم و آدم

کہ دل در مکتب عشق از تمنائے تو من بردم

1. جب صفحۂ ہستی (دنیا) پر عالم و آدم کا نشان نہ تھا تو اس وقت میں مکتب عشق میں تیری تمنا سے بھرا دل لے کر گیا تھا۔

کہ دارد ایں چنیں عیشے کہ در عشق تو من دارم

شرابم خوں کبابم دل ندیمم درد و نقلم غم

2. تمہارے عشق میں کون ایسا ہے جو مجھ جیسا عشق و سرور رکھتا ہے۔ خون شراب ہوگیا، دل کباب ہوچکا، درد میرا رفیق اور غم میری نماز ہے۔

برو اے عقل نا محرم کہ امشب با خیال او

چناں خوش خلوتے دارم کہ من ہم نیستم محرم

3. دور ہو اے عقل نامحرم کہ آج کی رات اس معشوق (ازلی وابدی) کے خیال میں مجھے ایسی اچھی خلوت میسر ہے کہ میں خود بھی اس خلوت کا محرم نہیں ہو (یعنی فنائیت کامل ہے جس میں احساس دوئی بھی باقی نہیں ہے)۔

اگر پرسند سعدؔ از عشق او حاصل چہا داری

ملامت ہائے گونا گوں جراحتہائے بے مرہم

4. اگر اے سعد لوگ پوچھیں کہ اس کے عشق میں تمہیں کیا ملا؟ تو کہہ دو کہ ہر طرح کی ملامتیں ملیں اور ایسے زخم ملے جن کا مرہم نہیں ۔

مأخذ :
  • کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 246)
  • Author :شاہ ہلال احمد قادری
  • مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
  • اشاعت : First

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے