آفتاب پر اشعار
آفتاب فارسی زبان کا
لفظ ہے جو 'آف' اور 'تاب' سے مل کر بنا ہے۔ 'تاب' 'تابدےن' مصدر سے اسم فاعل ہے یینع 'چمکنے والا'۔ اردو زبان مںا اصلی حالت اور اصلی معنی مں استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے "کلمۃ الحقائق" مںک اس کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔عرف عام میں ایک روشن گولا جو ہر صبح آسمان پر مشرق سے نکلتا ہے اور شام کو مغرب مںا ڈوبتا دکھائی دیتا ہے اسے آفتاب کہا جاتا ہے۔تصوف میں عموماً اس سے مراد روح مراد لیاجاتا ہے کیونکہ روح بدنِ انسانی میں آفتاب کے اور نفس مہتاب کے مشابہ ہے۔
اک آفتاب وحدت ہے جلوہ بخشِ کثرت
نکلی ہوئی ہیں گلیاں صدہا تری گلی میں
وصل کی شب ہو چکی رخصت قمر ہونے لگا
آفتاب روز محشر جلوہ گر ہونے لگا
ذرے کو آفتاب کا ہمتا بنا دیا
عشق نبی نے قطرے کو دریا بنا دیا
میں ذرہ تھا مجھے ذرے سے آفتاب کیا
پھر اب نہ ذرہ بنا آفتاب کر کے مجھے
بڑھ جائے کیوں نہ شعر مرا آفتاب سے
مضمون رخ کا باندھا ہے کس آب و تاب سے
تمہارے در پے آیا آفتابؔ اسکی جو مشکل ہے
کرو جلدی سے آساں، حضرت خواجہ معین الدیں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere