Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آفتاب پر اشعار

آفتاب فارسی زبان کا

لفظ ہے جو 'آف' اور 'تاب' سے مل کر بنا ہے۔ 'تاب' 'تابدےن' مصدر سے اسم فاعل ہے یینع 'چمکنے والا'۔ اردو زبان مںا اصلی حالت اور اصلی معنی مں استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے "کلمۃ الحقائق" مںک اس کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔عرف عام میں ایک روشن گولا جو ہر صبح آسمان پر مشرق سے نکلتا ہے اور شام کو مغرب مںا ڈوبتا دکھائی دیتا ہے اسے آفتاب کہا جاتا ہے۔تصوف میں عموماً اس سے مراد روح مراد لیاجاتا ہے کیونکہ روح بدنِ انسانی میں آفتاب کے اور نفس مہتاب کے مشابہ ہے۔

اک آفتاب وحدت ہے جلوہ بخشِ کثرت

نکلی ہوئی ہیں گلیاں صدہا تری گلی میں

امجد حیدرآبادی

وصل کی شب ہو چکی رخصت قمر ہونے لگا

آفتاب روز محشر جلوہ گر ہونے لگا

کشن سنگھ عارفؔ

کھینچتا ہوں، میں تصور سے بہ دل تصویر یار

آفتاب صبح ساں محبوب میرے بر میں ہے

بہرام جی

ذرے کو آفتاب کا ہمتا بنا دیا

عشق نبی نے قطرے کو دریا بنا دیا

طلحہ رضوی برقؔ

میں ذرہ تھا مجھے ذرے سے آفتاب کیا

پھر اب نہ ذرہ بنا آفتاب کر کے مجھے

قاضی خلیل الدین حسن

بڑھ جائے کیوں نہ شعر مرا آفتاب سے

مضمون رخ کا باندھا ہے کس آب و تاب سے

سیف فرخ آبادی

تمہارے در پے آیا آفتابؔ اسکی جو مشکل ہے

کرو جلدی سے آساں، حضرت خواجہ معین الدیں

شاہ عالم ثانی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

بولیے