میری پہلی پرورش تقدیس کی آغوش میں
قدسیوں کے سر بھی کاملؔ میرے آگے خم رہے
نیند آ آ کر اچٹ جاتی ہے تیری یاد میں
تار بستر نشتر آغوش ہے تیرے بغیر
ہیں صدقے کسے آج پیار آ گیا
یہ کون آ گیا میرے آغوش میں
کبھی آسیؔ سے ہم آغوش نہ دیکھا تجھ کو
اثر جذبۂ دل اہل محبت بھی نہیں
یوں ہوئی روح کو محسوس محبت اس کی
جیسے آغوش میں دریا کے سمندر اترا
مجھ کو تنہا دیکھنے والے نہ سمجھیں راز عشق
میری تنہائی کے لمحے یار کے آغوش ہیں
میں غش میں ہوں مجھے اتنا نہیں ہوش
تصور ہے ترا یا تو ہم آغوش
ہوش کی باتیں وہی کرتا ہے اکثر ہوش میں
خود بھی جو محبوب ہو محبوب کی آغوش میں
کہیں ناکام رہ جائے نہ ذوق جستجو اپنا
عدم سے بھی خیال یار ہم آغوش ہو جانا
آپ کی تصویر ہر دم دل سے ہم آغوش ہے
یعنی وہ بے ہوش ہوں قربان جس پر ہوش ہے
رات دن انگڑائیاں وہ لیں میری آغوش میں
جن حسینوں کے لبے پیدا یہ انگڑائی ہوئی
دیجبے ان کو کنار آرزو پر اختیار
جب وہ ہوں آغوش میں بے دست و پا ہو جائیے
نہ ہوگا ہمارا ہی آغوش خالی
کچھ اپنا بھی پہلو تہی پائیے گا
دنیائے ہوس میں زندگانی گزری
آغوش بہار میں جوانی گزری
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere