عاشق ہزاروں صورت پروانہ گر پڑے
الٹی نقاب رخ سے جو محفل میں یار نے
قتل کچھ عاشق ہوئے مقتل میں اس کے ہاتھ سے
کچھ پھرے مایوس اور شوق شہادت لے چلے
دل کا عالم عاشقی میں کیا کہوں کیا ہو گیا
رنج سہتے سہتے پتھر کا کلیجہ ہو گیا
عاشقوں کو پھر قضا آئی قیامت ہو گئی
پھر سمند ناز کو اس ترک نے جولاں کیا
اوگھٹؔ جہاں میں اب دل و دیں پوچھتا ہے کون
عاشق کا ان بتوں میں کوئی قدر داں نہیں
نہ تم نے قدر کچھ عاشق کی جانی
بہت روؤ گے اب تم یاد کر کے
درد دل اول تو وہ عاشق کا سنتے ہی نہیں
اور جو سنتے ہیں تو سنتے ہیں فسانے کی طرح
اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا
اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا
منہ پھیرے ہوئے تو مجھ سے جاتا ہے کہاں
مر جائے گا عاشق ترا آرے آرے
محبت جب ہوئی غالب نہیں چھپتی چھپانے سے
فغان و آہ و نالہ ہے ترے عاشق کا نقارا
گر پڑے غش کھا کے عاشق اور مردے جی اٹھے
دو قدم جب وہ چلے یہ حشر برپا ہو گیا
ہم تو عاشق ہیں تیرے سورج پہ جوں سورج مکھی
ہو جدھر تو بس ادھر ہی منہ ہمارا پھر گیا
تم کو کہتے ہیں کہ عاشق کی فغاں سنتے ہو
یہ تو کہنے ہی کی باتیں ہیں کہاں سنتے ہو
اسی کو کامیاب دید کہتے ہیں نظر والے
وہ عاشق جو ہلاک حسرت دیدار ہو جائے
دین و مذہب سے ترے عاشق کو اب کیا کام ہے
وہ سمجھتا ہی نہیں کیا کفر کیا اسلام ہے
لفظ الفت کی مکمل شرح اک تیرا وجود
عاشقی میں توڑ ڈالیں ظاہری ساری قیود
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے
لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے
کہا اس نے کہ اکبرؔ کس کے عاشق ہو کہا میں نے
تمہاری پیاری عادت کا تمہاری بھولی صورت کا
خبر اپنی نہیں رکھتے خبر غیروں کی کیا رکھیں
کہ عاشق ما سوائے یار سے بیزار بیٹھے ہیں
دم توڑ رہا ہے دیکھ ذرا عاشق ہے ترا کشتہ ہے ترا
اے موہنی صورت والے حسیں محبوب کو یوں برباد نہ کر
پیری نے بھرا ہے پھر جوانی کا روپ
عاشق ہوئے ہم ایک بت کم سن کے
دور آئے ایسا کوئی امیرؔ اب
احباب پر ہوں احباب عاشق
آرزوئے عاشق دلگیر آدھی رہ گئی
یعنی اس کے وصل کی تدبیر آدھی رہ گئی
ہے عاشق کو اپنے صنم کی قسم
مجھے تیرے خاک قدم کی قسم
معشوق پابوس میں عاشق نے بچھائی آنکھیں
فرش گل پر کبھی اس شوخ کو چلنے نہ دیا
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے
دل کے ہر گوشے میں تو ہو عاشقی ایسی تو ہو
میں تیرا ہو کر رہوں اب زندگی ایسی تو ہو
جو عاشق ہیں تیرے تڑپتے نہیں ہیں
کبھی آہ و نالے وہ کرتے نہیں ہیں
عشق میں عاشق کی یہ معراج ہے
قتل ہو قاتل کا منہ دیکھا کرے
ان کی حسرت کے سوا ہے کون اس میں دوسرا
دل کی خلوت میں بھی وہ عاشق سے شرماتے ہیں کیوں
گر عاشق صادق ہے اس کا مت الفت تو غیر سے جوڑ
ظلم کرے یا ستم کرے تو عشق سے اس کے منہ مت موڑ
امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے
مجھ کو مل جائے تو تدبیر تسلی پوچھوں
تو نے جس آنکھ سے عاشق کا تڑپنا دیکھا
تیرے عاشق تیرے شیدا کا یہ حال
ہائے کیسے تجھ سے دیکھا جائے ہے
عاشقوں کے ہوں گے راہ یار میں کیا کیا ہجوم
شوق جن کو کارواں در کارواں لے جائے گا
دم بدم یوں جو بد گمانی ہے
کچھ تو عاشق کی تجھ کو چاہ پڑی
اے ستم گر بے وفا یہ بے وفائی کب تلک
عاشقوں کی تیرے کوچے میں دہائی کب تلک
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere