Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آرزو پر اشعار

ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہیے

بس اک نگاہ مرشد میخانہ چاہیے

بیدم شاہ وارثی

آرزو یہ ہے تمہارا آنچل آنکھوں سے لگے

کچھ سمجھتے ہو کہ ہم روتے ہوئے آتے ہیں کیوں

آسی غازیپوری

آرزو حسرت تمنا مدعا کوئی نہیں

جب سے تم ہو میرے دل میں دوسرا کوئی نہیں

پرنم الہ آبادی

آرزو ہے کہ ترا دھیان رہے تا دم مرگ

شکل تیری نظر آئے مجھے جب آئے اجل

محسن کاکوروی

ہر آنکھ کو ہے تری تمنا

ہر دل میں تری ہی آرزو ہے

عارف اسلام پوری

آرزو ہے وفاؔ یہی اپنی

ان کے قدموں میں دم نکل جائے

وفا وارثی

یہ فریب تسکیں ہے ترک آرزو معلوم

ترک آرزو میکشؔ یہ بھی آرزو ہی ہے

میکش اکبرآبادی

کہیں رخ بدل نہ لے اب مری آرزو کا دھارا

وہ بدل رہے ہیں نظریں مری زندگی بدل کر

عزیز وارثی دہلوی

اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا

کہ میری آرزو دل سے نکلنے کو ترستی ہے

بیدم شاہ وارثی

پہنچ جاتی ہے کسی کے گوش دل تک

ہماری آرزو اتنی کہاں ہے

بے نظیر شاہ وارثی

رہی یہ آرزو آخر کے دم تک

نہ پہنچا سر مرا تیرے قدم تک

خواجہ رکن الدین عشقؔ

حسرت و یاس و آرزو شوق کا اقتدا کریں

کشتۂ غم کی لاش پر دھوم سے ہو نماز عشق

بیدم شاہ وارثی

مدتوں سے آرزو یہ دل میں ہے

ایک دن تو گھر ہمارے آئیے

میر محمد بیدار

اس وقت تک سلگتی رہی اس کی آرزو

جب تک دھوئیں سے سارا بدن بھر نہیں گیا

مظفر وارثی

دونوں جانب اگر آرزو وصل کی کوئی طوفاں اٹھائے تو میں کیا کروں

عشق انہیں گدگدائے تو وہ کیا کریں حسن مجھ کو بلائے تو میں کیا کروں

عبدالہادی کاوش

آرزو ہم ناخدا کی کیوں کریں

اپنی کشتی کا تو افسر اور ہے

مردان صفی

یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ

بلا سے پھاڑ کے پھر ہاتھ میں نہ لے کاغذ

احسن اللہ خاں بیان

محبت میں سراپا آرزو در آرزو میں ہوں

تمنا دل مرا ہے اور مرے دل کی تمنا تو

مضطر خیرآبادی

میرا دم بھی سماع میں نکلے

اب یہی ہے اک آرزو خواجہ

معین نظامی

کلیم بات بڑھاتے نہ گفتگو کرتے

لب خاموش سے اظہار آرزو کرتے

ریاض خیرآبادی

ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو بر آئے گی دل کی

نہ ہوگا خود خیال ان کو نہ ہوگی التجا مجھ سے

حسرت موہانی

تصور میں وہ آئیں گے تو پوری آرزو ہوگی

وہ میرے پاس ہوں گے اور ان سے گفتگو ہوگی

صادق دہلوی

اب تو صادقؔ ہے یہ آرزو

عشق ہی میری منزل بنے

صادق دہلوی

نہ نکلے جب کوئی ارماں نہ کوئی آرزو نکلی

تو اپنی حسرتوں کا خون ہونا اس کو کہتے ہیں

راقم دہلوی

ہماری آرزو دل کی تمہاری جنبش لب پر

تمنا اب بر آتی ہے اگر کچھ لب کشا تم ہو

راقم دہلوی

بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد

حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری

راقم دہلوی

مجھے ہر قدم تیری جستجو مجھے ہر نفس تیری آرزو

مجھے اپنا غم ہے نہ غم جہاں تیری شان جل جلالہ

مائلؔ وارثی

سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں

رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں

عزیز صفی پوری

یہی آرزو دل میں دھرتا اچھے

خدا سوں مناجات کرتا اچھے

فیض

لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو

ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا

جگر مرادآبادی

کچھ آرزو سے کام نہیں عشقؔ کو صبا

منظور اس کو ہے وہی جو ہو رضائے گل

خواجہ رکن الدین عشقؔ

مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا

کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے

عزیز وارثی دہلوی

یہ آرزو ہے کہ معراج زندگی ہو جائے

غلام کی در آقا پہ حاضری ہو جائے

اعجاز وارثی

پوچھتے ہیں وہ آرزو کوثرؔ

دل میں ارماں ایک ہو تو کہوں

کوثرؔ وارثی

ساحل کی آرزو نہیں تعلیم مصطفیٰ

یہ ناؤ تو روزانہ ہی منجدھار سے ہوئی

مظفر وارثی

کوثرؔ وصل شاہ حسیناں کی آرزو

مجھ کو نہیں جہاں میں ہوس مال و جاہ کی

کوثر خیرآبادی

وہ مل کے دست حنائی سے دل لہو کرتے

ہم آرزو کو حسیں خون آرزو کرتے

ریاض خیرآبادی

دیجئے ان کو کنار آرزو پر اختیار

جب وہ ہوں آغوش میں بے دست و پا ہو جائیے

سیماب اکبرآبادی

وہ تجلی جس نے دشت آرزو چمکا دیا

کچھ تو میرے دل میں ہے اور کچھ کف موسیٰ میں ہے

مضطر خیرآبادی

سب کچھ خدا نے مجھ کو دیا عرشؔ بے طلب

دختر کی آرزو نہ تمنا پسر کی ہے

عرش گیاوی

آرزو کے دل پہ آئیں گی نہ کیا کیا آفتیں

در پیے انکار ہے ناآشنائی آپ کی

حسرت موہانی

مجھے عیش و غم میں غرض نہیں اگر آرزو ہے تو ہے یہی

کہ امنگ بن کے چھپا رہے کوئی دل کے پردۂ راز میں

ولی وارثی

آرزو لازم ہے وجہ آرزو ہو یا نہ ہو

التفات اس کافر خود بیں کی خو ہو یا نہ ہو

حسرت موہانی

امیدیں تجھ سے تھیں وابستہ لاکھوں آرزو لیکن

بہت ہو کر تری درگاہ سے بے اعتبار آئی

حسرت موہانی

بہار آنے کی آرزو کیا بہار خود ہے نظر کا دھوکا

ابھی چمن جنت نظر ہے ابھی چمن کا پتا نہیں ہے

افقر موہانی

تیرے غم کی حسرت و آرزو ہے زبان عشق میں زندگی

جنہیں مل گیا ہے یہ مدعا وہ مقام زیست بھی پا گئے

صادق دہلوی

ازل سے ابھی تک تو یکساں ہے عالم

یہی آرزو تھی یہی آرزو ہے

بہزاد لکھنوی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

بولیے