پہچانتا وہ اب نہیں دشمن کو دوست سے
کس قید سے اسیر محبت رہا ہوا
اسیر گیسوئے پرخم بنائے پہلے عاشق کو
نکالے پھر وہ پیچ و خم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
جہاں میں خانہ زاد زلف کو کیا چھوڑ دیتے ہیں
کہ تم نے چھوڑ رکھا مجھ اسیر زلف پیچاں کو
میں ہمیشہ اسیر الم ہی رہا مرے دل میں سدا تیرا غم ہی رہا
مرا نخل امید قلم ہی رہا میرے رونے کا کوئی ثمر نہ ملا
کیوں کر نہ قرب حق کی طرف دل مرا کیجیے
گردن اسیر حلقۂ حبل الورید ہے
نو اسیر فرقت ہوں وصل یار مجھ سے پوچھ
ہو گئی خزاں دم میں سب بہار مجھ سے پوچھ
اسیر کاکل خم دار ہوں میں
گرفتار کمند یار ہوں میں
بہار آئی چمن میں گو مجھے کیا
گرفتار و اسیر دام ہوں میں
اسیر ذوق خودی جب یہاں سے گزرے ہیں
تو بے نیاز ترے آستاں سے گزرے ہیں
ہم نے مانا دام گیسو میں نہیں آسیؔ اسیر
باغ میں نظارۂ سنبل سے گھبراتے ہیں کیوں
اسیر حلقہ گیسوئے یار ہم بھی ہیں
کسی کے تیر نظر کے شکار ہم بھی ہیں
لبوں پر نام نہ آنسو حکایت نہ شکایت ہو
اسیر زلف دیوانہ ہے دیوانہ یہ کیا جانے
ہو گیا دام خوف غم سے رہا
جو تمہارا اسیر گیسو ہے
اس بلبل اسیر کی حسرت پہ داغ ہوں
مر ہی گئی قفس میں سنی جب صدائے گل
تو پاس تھا تو ہجر تھا اب دور ہے تو وصل
سب سے الگ ہے رنگ ترے اس اسیر کا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere