آواز پر اشعار
صدا(آواز) کا استعمال
لغت میں آواز، گونج،پکار، ندا اورفقرل کے مانگنے کی آوازکے لئے کیا جاتا ہے۔ تصوف میں اس کا استعمال اس صوتِ حق کے لئے ہوتا ہے جو قلب پر وارد ہوتی ہے۔
سانس میں آواز نے ہے دل غزل خواں ہے ذھینؔ
شاید آنے کو ہے وہ جان بہاراں اس طرف
میرے نالہ سن کے فرماتے ہیں وہ
یہ اسی کی دکھ بھری آواز ہے
سنا ہے ہم نے بہت کچھ کلیم کے منہ سے
ہم آئیں تو ہمیں آواز ہی سنا دینا
اسی کا ہے رنگ یاسمن میں اسی کی بو باس نسترن میں
جو کھڑکے پتا بھی اس چمن میں خیال آواز آشنا کر
پڑ گیا پردہ سماعت پر تری آواز کا
ایک آہٹ کتنے ہنگاموں پہ حاوی ہو گئی
کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں
آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں
سنائی جائے گی جب تک مجھے سزائے سخن
سکوت وقت میں آواز بھر چکا ہوں گا
کچھ آوازیں آتی ہیں سنسان شب میں
اب ان سے بھی خالی بیاباں ہوئے ہیں
ڈوب کر دیکھ سمندر ہوں میں آوازوں کا
طالب حسن سماعت مرا سناٹا ہے
چھپ اس طرح کہ ترا عکس بھی دکھائی نہ دے
تری صدا تری آواز بھی سنائی نہ دے
دور جا کر مری آواز سنی دنیا نے
فن اجاگر مرا آئینۂ فردا سے ہوا
ہر اک جسم میں ہے وہی بس خموش
ہر آواز میں بولتا ہے وہی
وہ بھی صادقؔ گوش بر آواز ہیں
اب میری آواز کچھ ہے تو سہی
جی اٹھے مردے تری آواز سے
پھر ذرا مطرب اسی انداز سے
ہر ترنم میں ملی ہے تیری آواز مجھے
ایک ہی نغمہ سناتا ہے ہر اک ساز مجھے
پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے
اونچا مری آواز کو دیوار نہ کر دے
ڈھونڈنے نکلا تھا آوازوں کی بستی میں اسے
سوچ کر ویراں گزر گاہوں پہ بیٹھا رہ گیا
آپ کی آواز میں ہے دعوت منزل کا راز
کاروان شوق کی بانگ درا ہو جائیے
راہ میں جنت حفیظؔ آواز دیتی ہی رہی
ہم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا کربلا جاتے ہوئے
بزم خلوت میں اگر چھپ کے حیا آنے لگی
بڑھ کے آواز دی شوخی نے کہ باہر باہر
کبھی تنہائیٔ منزل سے جو گھبراتا ہوں
ان کی آواز یہ آتی ہے کہ میں آتا ہوں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere