Font by Mehr Nastaliq Web

جنت پر اشعار

داور حشر یہ ہے حشر میں ارماں مجھ کو

بدلے جنت کے ملے کوچۂ جاناں مجھ کو

جگرؔ وارثی

تلاش بت میں مجھ کو دیکھ کر جنت میں سب بولے

یہ کافر کیوں چلا آیا مسلمانوں کی بستی میں

مضطر خیرآبادی

جنت ہے اس بغیر جہنم سے بھی زبوں

دوزخ بہشت ہے گی اگر یار ساتھ ہے

خواجہ میر اثر

ساز و ساماں ہیں میری یہ بے سر و سامانیاں

باغ جنت سے بھی اچھا ہے یہ ویرانہ مرا

کیفی حیدرآبادی

گلشن جنت کی کیا پروا ہے اے رضواں انہیں

ہیں جو مشتاق بہشت جاودان کوئے دوست

امیر مینائی

جس کی حسرت ہے مجھے ملتا نہیں وہ ماہرو

اے فلک حوران جنت لے کے آخر کیا کروں

رضا وارثی

جذبۂ عشق میں جنت کی تمنا کیسی

یہ بلندی تو مری گرد سفر ہوتی ہے

فنا بلند شہری

در وارث پہ ہے بیدمؔ کا بستر

تری جنت تجھے رضواں مبارک

بیدم شاہ وارثی

تم ہو شریک غم تو مجھے کوئی غم نہیں

دنیا بھی مرے واسطے جنت سے کم نہیں

فنا بلند شہری

باغ و بہشت و حور و جنت ابراروں کو کیجیے عنایت

ہمیں نہیں کچھ اس کی ضرورت آپ کے ہم دیوانے ہیں

نثار اکبرآبادی

مبارک زاہدوں کو پھر باغ خلد کوثر

نہ جنت میرے قابل ہے نہ میں جنت کے قابل ہوں

کوثر خیرآبادی

حرم ہے جائے ادب کام دے گی جنت میں

فرشتو طاق سے بوتل ذرا اٹھا دینا

ریاض خیرآبادی

سکون مستقل دل بے تمنا شیخ کی صحبت

یہ جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہو گا

ہری چند اختر

وہ اے سیمابؔ کیوں سرگشتۂ تسنیم و جنت ہو

میسر جس کو سیر تاج اور جمنا کا ساحل ہے

سیماب اکبرآبادی

وہاں تو حضرت زاہد تمہیں اچھوں سے نفرت تھی

یہاں جنت میں اب کس منہ سے تم لینے کو حور آئے

مضطر خیرآبادی

بتوں کے لیے سب جلے آگ میں

جہنم پہ جنت فدا ہو گئی

مضطر خیرآبادی

ملا کیا حضرت آدم کو پھل جنت سے آنے کا

نہ کیوں اس غم سے سینہ چاک‌ ہو گندم کے دانے کا

شاہ نصیر

حور جنت ان سے کچھ بڑھ کر سہی

ایک دل کیا کیا تمنا کیجیے

آسی غازیپوری

حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد

جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا

پرنم الہ آبادی

ترے کوچے میں کیوں بیٹھے فقط اس واسطے بیٹھے

کہ جب اٹھیں گے اس دنیا سے جنت لے کے اٹھیں گے

مضطر خیرآبادی

ہم ایسے غرق دریائے گنہہ جنت میں جا نکلے

توان لطمۂ‌ موج شفاعت ہو تو ایسی ہو

آسی غازیپوری

اس دودھ کا خدا کرے کاسہ ہمیں نصیب

جنت میں پنج تن کی جو بہتی ہے جوئے شیر

احسن اللہ خاں بیان

بہار آنے کی آرزو کیا بہار خود ہے نظر کا دھوکا

ابھی چمن جنت نظر ہے ابھی چمن کا پتا نہیں ہے

افقر موہانی

ترا جام جام کوثر ترا مے کدہ ہے جنت

مرے حال پہ کرم کر مری تشنگی بجھا دے

فنا بلند شہری

یہ بت جب جہنم میں ڈالے گئے

تو پھر تیری جنت میں کیا رہ گیا

مضطر خیرآبادی

وفاداری کی صورت میں جفا کاری کا نقشا تو

یہ نیرنگ محبت ہے کہ ایسا میں ہوں ویسا تو

مضطر خیرآبادی

خدا رکھے عجب کیف بہار کوئے جاناں ہے

کہ دل ہے جلوہ ساماں تو نظر جنت بہ داماں ہے

افقر موہانی

جیسی چاہے کوششیں کر واعظ باطن خراب

تیرے رہنے کو تو جنت میں مکاں ملتا نہیں

اکبر وارثی میرٹھی

ہمیں نسبت ہے جنت سے کہ ہم بھی نسل آدم ہیں

ہمارا حصہ راقمؔ ہے ارم میں حوض کوثر میں

راقم دہلوی

اور ہیں جن کو ہے خبط عشق حوران جناں

ہم کو سودائے ہوائے گلشن جنت نہیں

عرش گیاوی

نصیرؔ خستہ جاں جنت سے اس کوچے کو کب بدلے

بہ از ظل ہما ہے یار کی دیوار کا سایا

شاہ نصیر

اٹھ کے اندھیری راتوں میں ہم تجھ کو پکارا کرتے ہیں

ہر چیز سے نفرت ہم کو ہوئی ہم جنت فردا بھول گئے

عبدالہادی کاوش

کیوں نہ دوزخ بھی ہو جنت مجھے جب خود وہ کہے

اس گنہ گار کو لے جاؤ یہ مغفور نہیں

عرفان اسلام پوری

چمن سینۂ پر داغ میں تیرا جلوہ

یار قابل ترے گل گشت کے جنت بھی نہیں

آسی غازیپوری

جس دن سے میرے دل کو آباد کیا تم نے

انوار کی جنت ہے کاشانہ جسے کہئے

صادق دہلوی

اب اجازت دفن کی ہو جائے تو جنت ملے

یار کے کوچے میں ہم نے جائے مدفن کی تلاش

اکبر وارثی میرٹھی

کوچۂ قاتل میں مجھ کو گھیر کر لائی ہے یہ

جیتے جی جنت میں پہنچا دے قضا ایسی تو ہو

کیفی حیدرآبادی

گئے مے پیتے ہوئے عالم اسرار سے ہم

مست جنت میں گئے خانۂ خمار سے ہم

نورؔ بہاری

حامدؔ رہے آباد سدا شہر نبی کا

جنت سے بھی مرغوب مدینے کی فضا ہے

حامدؔ وارثی گجراتی

متعلقہ موضوعات

بولیے