Font by Mehr Nastaliq Web

خفا پر اشعار

خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے

اثرؔ تو کوئی دم کا مہمان ہے

خواجہ میر اثر

اس نے میت پہ آ کر کہا

تم تو سچ مچ خفا ہو گئے

پرنم الہ آبادی

دیر سے آنے پہ میرے تیری دل کش برہمی

وہ خفا ہونا ترا وہ روٹھنا اچھا لگا

پرنم الہ آبادی

دیر سے آنے پہ میرے تیری دل کش برہمی

وہ خفا ہونا ترا وہ روٹھنا اچھا لگا

پرنم الہ آبادی

میں فدا ہوں آپ پر اور آپ ہو مجھ پر خفا

یہ میری تقصیر ہے یا کج ادائی آپ کی

کشن سنگھ عارفؔ

عجب ہیں یہ راز و نیاز محبت

خفا کیوں ہوئے وہ ہیں اس پر خفا ہم

حسرت موہانی

محبت کے عوض رہنے لگے ہر دم خفا مجھ سے

کہو تو ایسی کیا سرزد ہوئی آخر خطا مجھ سے

حسرت موہانی

جان و دل سے بھی گزر جائیں

اگر ایسا ہی خفا کیجئے گا

خواجہ میر اثر

وہ میرے سر کو ٹھکراتے ہیں سجدوں سے خفا ہو کر

جبیں سے میری پیوستہ ہے ان کا آستاں پھر بھی

سیماب اکبرآبادی

کیا کہا میں نے جو ناحق تم خفا ہونے لگے

کچھ سنا بھی یا کہ یوں ہی فیصلہ ہونے لگا

حسرت موہانی

آج کیا ہے کہو کیوں ایسے خفا بیٹھے ہو

اپنی کہتے ہو نہ میری ہی میاں سنتے ہو

میر محمد بیدار

غیروں میں نہ میں عرض تمنا سے رکوں گا

اغماض کرے وہ سر محفل کہ خفا ہو

ابراہیم عاجزؔ

تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو

اے بتو کیا کسی کے خدا ہو

بیدم شاہ وارثی

خفا مت ہو بیدارؔ اندیشہ کیا ہے

ملا گر نہ وہ آج کل مل رہے گا

میر محمد بیدار

ہوتے آزردہ ہو آنے سے ہمارے جو تم

خوش رہو مت ہو خفا ہم چلے لو بسم اللہ

میر محمد بیدار

یا وہ تھی خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے

کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

جگر مرادآبادی

میں خفا ہو کے جب اٹھا تو وہ بولے کوثرؔ

فتنۂ حشر نے چومے دم رفتار قدم

کوثرؔ وارثی

گو زیست سے ہیں ہم آپ بیزار

اتنا پہ نہ جان سے خفا کر

خواجہ میر اثر

اچھے سے خوش برے سے خفا ہے یہ نفس بد

دیکھے کوئی تو حال زار اس شریر کا

امین الدین وارثی

خفا صیاد ہے چیں بر جبیں گلچیں ہے کیا باعث

برا کس کا کیا تقصیر کی ہم نے بھلا کس کی

آسی غازیپوری

جہاں ہو بجلیوں کا خوف پیہم

سکون آشیاں کچھ بھی نہیں ہے

گوربچن سنگھ دیال

اٹھ جاؤں گا ایک دن خفا ہو

یہاں تک نہ کرو اداس مجھ کو

میر محمد بیدار

اگر ہم سے خفا ہونا ہے تو ہو جائیے حضرت

ہمارے بعد پھر انداز یزداں کون دیکھے گا

عزیز وارثی دہلوی

متعلقہ موضوعات

بولیے