Font by Mehr Nastaliq Web

خوف پر اشعار

اس کے کوچے میں کہاں کشمکش بیم و رجا

خوف دوزخ بھی نہیں خواہش جنت بھی نہیں

آسی غازیپوری

کچھ تو کر خوف خدا دل میں اے ظالم اپنے

دل عشاق کو اس طرح سے برباد نہ کر

بانکے لال

بندہ قصوروار ہے خالق مرا غفور

اب خوف دل میں بھلا ہم کبھو کریں

عطا حسین فانی

بادہ خوار تم کو کیا خورشید محشر کا ہے خوف

چھا رہا ہے ابر رحمت شامیانے کی طرح

امیر مینائی

محبت خوف رسوائی کا باعث بن ہی جاتی ہے

طریق عشق میں اپنوں سے پردا ہو ہی جاتا ہے

مضطر خیرآبادی

مرے صیاد کو با وصف اسیری ہے یہ خوف

میں قفس میں بھی بنا لوں گا گلستاں کوئی

حیات وارثی

اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو

اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے

واصف علی واصف

نہ نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں

نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ کرم سے غرض

بیدم شاہ وارثی

ہو گیا دام خوف غم سے رہا

جو تمہارا اسیر گیسو ہے

آسی غازیپوری

دل بے تاب سنبھل خوف ہے رسوائی کا

حال دیکھے نا کوئی مضطربانہ تیرا

کیفی حیدرآبادی

ہے کیا خوف عارفؔ کو محشر کے دن

وکالت پے جب پیر مختار ہو

کشن سنگھ عارفؔ

خزاں کا خوف تھا جن کو چمن میں

انہیں پھولوں کے چہرے زرد نکل

پرنم الہ آبادی

عاشق جاں نثار کو خوف نہیں ہے مرگ کا

تیری طرف سے اے صنم جور و جفا جو ہو سو ہو

میر محمد بیدار

جو مرنے سے موئے پہلے انہیں کیا خوف دوزخ کا

دل اپنا نار ہجرت سے جلا لے جس کا جی چاہے

کشن سنگھ عارفؔ

ارادہ آج بے خوف و خطر ہے ان کی محفل کا

محبت میں کوئی دیکھے تو یہ دیوانہ پن اپنا

حسرت موہانی

نہیں آتی قضا مقتل میں خوف تیغ قاتل سے

الٰہی خیر کیوںکر دم تن بسمل سے نکلے گا

ہشم لکھنؤی

جوش جنوں میں داغ جگر میرے بھرے

گلچیں ہمارے باغ کو خوف خزاں نہیں

کوثر خیرآبادی

ہجوم داغ محبت میں لالہ زار ہوں میں

خزاں کا خوف نہیں جسکو وہ بہار ہوں، میں

نجیب لکھنوی

خوبرو خود آ ملے جب پھر کسی کا خوف کیا

یہ وہ جادو ہے جسے تسخیر کی حاجت نہیں

کشن سنگھ عارفؔ

گوڑھ ظلمات اندھیر غباراں راہ نے خوف خطر دے ہو

آب حیات منور چشمے سائے زلف عنبر دے ہو

سلطان باہو

کوچۂ جاناں میں جانا ہے محال

خوف ہے اس سنگ دل خونخوار سے

کشن سنگھ عارفؔ

خوف بدنامی سے تجھ پاس نہ آئے ورنہ

ہم کئی بار سن اے یار اٹھے اور بیٹھے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

حیران ہے تیرے مذہب سے سب گبرو مسلماں اے احقرؔ

یہ اس کی گلی کا رستہ ہے پر خوف بھی ہے پر خار بھی ہے

احقر بہاری

جان کا کچھ خوف جانبازان الفت کو نہیں

آپ دکھلاتے ہیں کیوں تیغ سفاہانی مجھے

صادق لکھنوی

آتش دوزخ کا ہم تر دامنوں کو کیا ہے خوف

واعظا جلتی نہیں ہے ہیزم تر آگ میں

شاہ نصیر

گلزار میں دنیا کے ہوں جو نخل بھچنپا

خواہش نہ ثمر کی نہ میاں خوف قہر کا

خواجہ رکن الدین عشقؔ

متعلقہ موضوعات

بولیے