Font by Mehr Nastaliq Web

نقاب از روئے او وا بود شب جائے کہ من بودم

اوحدی

نقاب از روئے او وا بود شب جائے کہ من بودم

اوحدی

MORE BYاوحدی

    نقاب از روئے او وا بود شب جائے کہ من بودم

    ز حسنش شور و غوغا بود شب جائے کہ من بودم

    وہ رات جہاں میں تھا تمہارے چہرے سے نقاب ہٹا ہوا تھا، وہ رات جہاں میں تھا تمہارے حسن نے ہنگامہ کر رکھا تھا۔

    ہمہ مستی و مدہوشی حریفاں را کہ بود آخر

    ز چشم ساقیٔ ما بود شب جائے کہ من بودم

    وہ رات جہاں میں تھا ہمارے رقیبوں پر جو مستی طاری تھی، وہ ہمارے ساقی کی آنکھوں سے تھی۔

    ز پیش شمع رخسار نگار ما چو پروانہ

    ز ہر سو رقص دل ہا بود شب جائے کہ من بودم

    وہ رات جہاں میں تھا ہمارے محبوب کے گالوں کی شمع، کے آگے دل پروانوں جیسے ناچ رہے تھے۔

    خم و خم خانہ و ہم بادہ و ہم جام و ہم مطرب

    ہماں آں دلبر ما بود شب جائے کہ من بودم

    کل رات جہاں میں تھا شمع، مے خانہ، شراب، پیالہ ، اور نغمہ خواں، تمام کے تمام ہمارے دلبر تھے۔

    ز جام لعل او چوں اوحدیؔ پیر مغاں ساقی

    ہمہ مدہوش و شیدا بود شب جائے کہ من بودم

    کل رات جہاں میں تھا اُس کی لال شراب سے اوحدی کی طرح، ساقی سے لے کر پیرِ مغان تک سب مدہوش تھے۔

    مأخذ :
    • کتاب : نغمات سماع (Pg. 254)
    • مطبع : نورالحسن مودودی صابری (1935)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے