نقاب از روئے او وا بود شب جائے کہ من بودم
نقاب از روئے او وا بود شب جائے کہ من بودم
ز حسنش شور و غوغا بود شب جائے کہ من بودم
وہ رات جہاں میں تھا تمہارے چہرے سے نقاب ہٹا ہوا تھا، وہ رات جہاں میں تھا تمہارے حسن نے ہنگامہ کر رکھا تھا۔
ہمہ مستی و مدہوشی حریفاں را کہ بود آخر
ز چشم ساقیٔ ما بود شب جائے کہ من بودم
وہ رات جہاں میں تھا ہمارے رقیبوں پر جو مستی طاری تھی، وہ ہمارے ساقی کی آنکھوں سے تھی۔
ز پیش شمع رخسار نگار ما چو پروانہ
ز ہر سو رقص دل ہا بود شب جائے کہ من بودم
وہ رات جہاں میں تھا ہمارے محبوب کے گالوں کی شمع، کے آگے دل پروانوں جیسے ناچ رہے تھے۔
خم و خم خانہ و ہم بادہ و ہم جام و ہم مطرب
ہماں آں دلبر ما بود شب جائے کہ من بودم
کل رات جہاں میں تھا شمع، مے خانہ، شراب، پیالہ ، اور نغمہ خواں، تمام کے تمام ہمارے دلبر تھے۔
ز جام لعل او چوں اوحدیؔ پیر مغاں ساقی
ہمہ مدہوش و شیدا بود شب جائے کہ من بودم
کل رات جہاں میں تھا اُس کی لال شراب سے اوحدی کی طرح، ساقی سے لے کر پیرِ مغان تک سب مدہوش تھے۔
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 254)
- مطبع : نورالحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.