عزیز صفی پوری کے اشعار
مجھے عشق نے یہ پتا دیا کہ نہ ہجر ہے نہ وصال ہے
اسی ذات کا میں ظہور ہوں یہ جمال اسی کا جمال ہے
ادب سے سر جھکا کر قاصد اس کے روبرو جانا
نہایت شوق سے کہنا پیام آہستہ آہستہ
میں فداۓ مرشد پاک ہوں، دربارگاہ کی خاک ہوں
وہ سما کے مجھ میں یہ کہتے ہیں کہ عزیزؔ غیر محال ہے
کوئی ہے مومن کوئی ہے ترسا خدا کی باتیں خدا ہی جانے
عجب طرح کا ہے یہ تماشہ خدا کی باتیں خدا ہی جانے
بس وہی پاتا ہے عیش زندگی
جس کو غم میں مبتلا کرتا ہے عشق
نہ پوچھو بے نیازی آہ طرز امتحاں دیکھو
ملائی خاک میں ہنس ہنس کے میری آبرو برسوں
کوئی کیا سمجھے کہ کیا کرتا ہے عشق
ہر دم اک فتنہ بپا کرتا ہے عشق
آغاز تو ہے انجام تو ہے ایمان تو ہی اسلام تو ہے
ہے تجھ پہ عزیزؔ خستہ فدا اے نور محمد صلی اللہ
عشق را با حسن یکجا کردہ اند
طرفہ سامانے مہیا کردہ اند
سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں
رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں
وصل عین دوری ہے بے خودی ضروری ہے
کچھ بھی کہہ نہیں سکتا ماجرا جدائی کا
وصل عین دوری ہے بے خودی ضروری ہے
کچھ بھی کہہ نہیں سکتا ماجرا جدائی کا
سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں
رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere