مجھے عشق نے یہ پتا دیا کہ نہ ہجر ہے نہ وصال ہے
اسی ذات کا میں ظہور ہوں یہ جمال اسی کا جمال ہے
ہر تمنا عشق میں حرف غلط
عاشقی میں معنیٔ حاصل فریب
عشق ماہی دے لائیاں اگیں لگی کون بجھاوے ہو
میں کی جاناں ذات عشق جو در در جا جھکاوے ہو
اندر کلمہ کل کل کردا عشق سکھایا کلمہ ہو
چوداں طبقے کلمہ اندر چھڈ کتاباں علماں ہو
جس منزول نوں عشق پہنچاوے ایمان خبر نہ کوئی ہو
عشق سلامت رکھیں باہوؔ دیاں ایمان دھروئی ہو
ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو
جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان خبر نہ کوئی ہو
مرشد مکہ طالب حاجی کعبہ عشق بڑایا ہو
وچ حضور سدا ہر ویلے کریے حج سوایا ہو
عاشق عشق ماہی دے کولوں پھرن ہمیشہ کھیوے ہو
جندے جان ماہی نوں ڈتی دوہیں جہانیں جیوے ہو
عاشق ہو تے عشق کما دل رکھیں وانگ پہاڑاں ہو
سئے سئے بدیاں لکھ الاہمیں جانیں باغ بہاراں ہو
عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
عشق دی گل اولی جہڑا شرعا تھیں دور ہٹاوے ہو
قاضی چھوڑ قضائی جان جد عشق طمانچا لاوے ہو
ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو
مانگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو
اندر بھائی اندر بالن اندر دے وچ دھوہاں ہو
شاہ رگ تھیں رب نیڑے لدھا عشق کیتام جد سوہاں ہو
پاک بازی اپنی پیغام طلب تھی عشق میں
دھو کے داغ تہمت ہستی سفر درکار تھا
حسن محو رنگ و بو ہے عشق غرق ہائے و ہو
ہر گلستاں اس طرف ہے ہر بیاباں اس طرف
مضمون یہ عشقؔ دل میں میرے آیا
اس رمز رسالت کو نظر سے پایا
دلبر میں دل یا دلبر دل میں ہے
عشقؔ اس کو بتا کس طرح سے غیر کہوں
عشق آسانوں لسیاں جاتا کر کے آوے دھائی ہو
جت ول ویکھاں عشق دسیوے خالی جا نہ کائی ہو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو
عشق سلامت رکھیں باہوؔ دیاں ایمان دھروئی ہو
عشق میں ایسا اک عالم بھی گزر جاتا ہے
ذہن و ادراک کا احساس بھی مر جاتا ہے
بتوں کا عشق ہوا جب نصیب واعظ
کہ مدتوں کیا پہلے خدا خدا ہم نے
جنہاں عشق حقیقی پایہ موہوں نا الاوت ہو
ذکر فکر وچ رہن ہمیشہ دم نوں قید لگاون ہو
عشق نے توڑی سر پہ قیامت زور قیامت کیا کہیے
سننے والا کوئی نہیں روداد محبت کیا کہیے
عشق خود مائل حجاب ہے آج
حسن مجبور اضطراب ہے آج
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا
عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے
پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے
ہر گھڑی پیش نظر عشق میں کیا کیا نہ رہا
میرا دل بس تری تصویر کا دیوانہ رہا
کوئی کیا سمجھے کہ کیا کرتا ہے عشق
ہر دم اک فتنہ بپا کرتا ہے عشق
جس کی نظر عشقؔ کے اوپر پڑی
چشم کے تئیں اپنی وہ تر کر گیا
عشق کا درد بے دوا ہے یہ
جانے تیری بلا کہ کیا ہے یہ
ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج
عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں
پہنچا ہے جب سے عشق کا مجھ کو سلام خاص
دل کے نگیں پہ تب سے کھدایا ہے نام خاص
عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو
پھر کوئی روزن دیوار سے جھانکا دیکھو
مرا عشق منظر عام پر ترا حسن پردۂ راز میں
یہی فرق روز ازل سے ہے ترے ناز میرے نیاز میں
یہ عشق کی ہے سرکار احقرؔ غصہ بھی یہاں ہے پیار بھی ہے
ہر زخم جگر کے پھاہے میں کافور بھی ہے زنگار بھی ہے
اس چمن کی سیر میں اے گلعذار
عشقؔ کی آنکھوں میں طوفاں یا نصیب
محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے
ہے وہ ملکہ کہ سبکبار اٹھے اور بیٹھے
گر طالب اللہ ہوا ہے عشق کو پہلے پیدا کر
پریم کی چکی میں دل اپنا پیس پسا کر میدا کر
عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
بستیاں نکلیں جنہیں ویرانیاں سمجھا تھا میں
چو نے خالی شدم از آرزوہا لیک عشق او
بگوشم می دمد حرفے کہ من ناچار می نالم
عشق میں پوجتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
ایک پل دل کو مرے اس کے بن آرام نہیں
سوچا کبھی نہ عشق میں کچھ پیار کے سوا
حسرت کوئی نہ کی تیرے دیدار کے سوا
مقدور کیا جو کہہ سکوں کچھ رمز عشق کو
جوں شمع ہوں اگرچہ سراپا زبان عشق
لیل و نہار چاہے اگر خوب گزرے عشقؔ
کر ورد اس کے نام کو تو صبح و شام کا
عشق تھا اپنے زعم میں عشق کو ضد بنی رہی
قصہ ہوا نہ مختصر عمر تمام ہو گئی
گر حقیقی نہیں بے لوث مجازی ہی سہی
رہ کئے عشق سے پیدا کسی بابت رہئے