تمام
تعارف
کلام12
نعت و منقبت37
غزل73
ای-کتاب21
فارسی صوفی شاعری13
سلام1
شعر18
ویڈیو 9
چادر1
ہولی1
بلاگ4
قطعہ9
بیت11
بسنت2
رباعی92
مخمس1
شاہ اکبر داناپوری کے اشعار
عشق میں عاشق کی یہ معراج ہے
قتل ہو قاتل کا منہ دیکھا کرے
کس گھر میں کس حجاب میں اے جاں نہاں ہو تم
ہم راہ دیکھتے ہیں تمہاری کہاں ہو تم
رنگ گل پھیکا ہے جس کے سامنے
اتنا رنگیں یار کا رخسار ہے
مرمٹے تیری محبت میں محبت والے
ان پہ رشک آتا ہے یہ لوگ ہیں قسمت والے
ہیں شوق ذبح میں عاشق تڑپتے مرغ بسمل سے
اجل تو ہے ذرا کہہ آنا یہ پیغام قاتل سے
بھولے گا نہ اے اکبرؔ استاد کا یہ مصرع
ساقی دیے جا ساغر جب تک نہ ہو بے ہوشی
دیکھیں خوش ہو کے نہ کیوں آپ تماشا اپنا
آئینہ اپنا ہے عکس اپنا ہے جلوہ اپنا
منہ پھیرے ہوئے تو مجھ سے جاتا ہے کہاں
مر جائے گا عاشق ترا آرے آرے
یا خدا اکبرؔ کی کشتی کو نکال
تو ہی اس بیڑے کا کھیون ہار ہے
یا خدا اکبرؔ کی کشتی کو نکال
تو ہی اس بیڑے کا کھیون ہار ہے
پیری نے بھرا ہے پھر جوانی کا روپ
عاشق ہوئے ہم ایک بت کم سن کے
حاضر ہے بزم یار میں سامان عیش سب
اب کس کا انتظار ہے اکبرؔ کہاں ہو تم
نہ کمر اس کی نظر آئے ثابت ہو دہن
گفتگو اس میں عبث اس میں ہے تکرار عبث
کوئی رشک گلستاں ہے تو کوئی غیرت گلشن
ہوئے کیا کیا حسیں گلچھرہ پیدا آب و گل سے
ہم سے پھر جائے زمانہ بھی تو کیا ہوتا ہے
دل ہے مضبوط فقیروں کا خدا ہوتا ہے
رند بھی اکبرؔ ہے صوفی بھی ہے عاشق وضع بھی
کہتے ہیں اربابِ معنی میرا دیواں دیکھ کر
دہن ہے چھوٹا کمر ہے پتلی سڈول بازو جمال اچھا
طبیعت اپنی بھی ہے مزے کی پسند اچھی خیال اچھا
عشق میں عاشق کی یہ معراج ہے
قتل ہو قاتل کا منہ دیکھا کرے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere