Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آہ پر اشعار

آہ فارسی زبان مں افسوس

کے موقع پر استعمال کیا جانے والا ایک کلمہ ہے۔ ہندی مں ہائے اور انگریزی مںی Oh مستعمل ہے۔ اردو مںں فارسی زبان سے لیا گیاہے ۔ یہ اردو میں بطور اسم اور بطور حرف دونوں طرح مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلا ت مںن اس کا استعمال ملتا ہے۔ذیل کے شعرمیں میرتقی میر نے اسی معنی میں اسے استعمال کیا ہے؂ آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا اس باد نے ہمںو تو دیا سا بُجھا دیا تصوف میں یہ کمالِ عشق کی ایک علامت ہے جس کے بیان سے زبان وقلم دونوں قاصر ہیں۔

میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی

تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں

جگر مرادآبادی

درد دل کتنا پسند آیا اسے

میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی

آسی غازیپوری

نالہ فریاد آہ اور زاری

آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا

خواجہ میر درد

نہ لگا لے گئے جہاں دل کو

آہ لے جائیے کہاں دل کو

خواجہ میر اثر

وہ کہ اک مدت تلک جس کو بھلا کہتا رہا

آہ اب کس منہ سے ذکر اس کی برائی کا کروں

احسن اللہ خاں بیان

لایا تمہارے پاس ہوں یا پیر الغیاث

کر آہ کے قلم سے میں تحریر الغیاث

شاہ نیاز احمد بریلوی

تیرے فراق میں ہر وقت آہ کرتا ہوں

تیرے لیے جوانی تباہ کرتا ہوں

ولی وارثی

فلک خود پیر ہے گردش ستائے آپ ہی اس کو

اسی سے آہ کو شکوہ ہے اپنی نارسائی کا

فداؔ وارثی

سینکڑوں مر مر گئے ہیں عشق کے ہاتھوں سے آہ

میں ہی کیا پتھر سے اپنا سر پٹک کر رہ گیا

شاہ نصیر

ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری

کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

جگر مرادآبادی

آہ اے یار کیا کروں تجھ بن

نالۂ زار کیا کروں تجھ بن

میر محمد بیدار

نہ پوچھو بے نیازی آہ طرز امتحاں دیکھو

ملائی خاک میں ہنس ہنس کے میری آبرو برسوں

عزیز صفی پوری

ایک دن مدتوں میں آئے ہو

آہ تس پر بھی منہ چھپائے ہو

میر محمد بیدار

ہر دم آتی ہے گرچہ آہ پر آہ

پر کوئی کارگر نہیں آتی

خواجہ میر اثر

آپ کو ہم نے کھو دیا ہے بیاںؔ

آہ کس کا سراغ رکھتے ہیں

احسن اللہ خاں بیان

دو قدم پر رہ گئی ہے منزل مقصود آہ

چھوڑ کر تنہا نہ جاؤ ہمرہاں بہر خدا

شاہ نصیر

ہوس جو دل میں گزرے ہے کہوں کیا آہ میں تم کو

یہی آتا ہے جی میں بن کے بامہن آج تو یارو

نظیر اکبرآبادی

کیا کروں آہ میں اثرؔ کا علاج

اس گھڑی اس کا جی ہی جاتا ہے

خواجہ میر اثر

کاری لگی جگر پہ کٹاری نگاہ کی

بے خود ہوا زمیں پر گرا دل سے آہ کی

کوثر خیرآبادی

آہ ملتے ہی پھر جدائی کی

واہ کیا خوب آشنائی کی

میر محمد بیدار

آہ اس پردہ نشیں کی جستجو میں جو گئے

کچھ پتہ پایا نہ اس کا خود ہی جا کر کھو گئے

سنجر غازیپوری

کیوں میں فراق یار میں آہ و فغاں کروں

کوثرؔ دل حزیں جرس کارواں نہیں

کوثر خیرآبادی

کریں آہ و فغاں پھوڑیں پھپھولے اس طرح دل کے

ارادہ ہے کہ روئیں عید کے دن بھی گلے مل کے

اوگھٹ شاہ وارثی

پیہم جو آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں

دولت ہے غم زکوٰۃ دئیے جا رہا ہوں میں

جگر مرادآبادی

سیلاب چشم اشک میں ہونٹوں پہ آہ ہے

اے درد دل بہت مری حالت تباہ ہے

روشن بدایونی

آہ دنیا سرائے فانی ہے

کس قدر مختصر کہانی ہے

الطاف مشہدی

کچھ درد کی شدت ہے کچھ پاس محبت ہے

ہم آہ تو کرتے ہیں فریاد نہیں کرتے

فنا نظامی کانپوری

کس طرح دکھاؤں آہ تجھ کو

میں اپنی یہ خراب حالی

خواجہ میر اثر

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

بولیے