ہجر کی جو مصیبتیں عرض کیں اس کے سامنے
ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے
خنجر کیسا فقط ادا سے
تڑپا تڑپا کے مار ڈالا
صنم کا ناز و انداز و ادا کیا
فقیر وارثی کا مدعا کیا
اس ادا سے میں نے دیکھے داغ اپنے خون کے
اک تماشا روز محشر ان کا داماں ہو گیا
ادا سے ہاتھ اٹھنے میں گل راکھی جو ہلتے ہیں
کلیجے دیکھنے والوں کے کیا کیا آہ چھلتے ہیں
میں نہ مانوں گا کہ دی اغیار نے ترغیب قتل
دشمنوں سے دوستی کا حق ادا کیونکر ہوا
دل ربائی کی ادا یوں نہ کسی نے پائی
میرے سرکار سے پہلے مرے سرکار کے بعد
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا
مضطرؔ اس نے سوال الفت پر
کس ادا سے کہا خدا نہ کرے
مرا سجدۂ محبت کبھی اس طرح ادا ہو
کہ مری جبیں جھکے جب نہ اٹھے تمہارے در سے
ہم گلشن فطرت سے جینے کی ادا لیں گے
شاخوں سے لچک لیں گے کانٹوں سے انا لیں گے
وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی
وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے
تری محفل میں جو آیا بانداز عجب آیا
کوئی لیلیٰ ادا آیا کوئی مجنوں لقب آیا
وہ ادا شناس خزاں ہوں میں وہ مزاج دان بہار ہوں
نہ ہے اعتبار خزاں مجھے نہ یقین فصل بہار پر
حسینوں میں وہ گل سب سے جدا ہے اپنی رنگت کا
ادا کا ناز کا عشوہ کا شوخی کا شرارت کا
اک وہ کہ بے کہے ہمیں دیتا ہے نعمتیں
اک ہم کہ ہم سے شکر ادا بھی نہ ہو سکے
عشق ہر آن نئی شان نظر رکھتا ہے
غمزہ و عشوہ وانداز و ادا کچھ بھی نہیں
یہ آداب محبت ہے ترے قدموں پہ سر رکھ دوں
یہ تیری اک ادا ہے پھیر کر منہ مسکرا دینا
غضب ہے ادا چشم جادو اثر میں
کہ دل پس گیا بس نظر ہی نظر میں
مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے
ہر اک ادا کو تری لا جواب کہتے ہیں
ستم کو بھی کرم بے حساب کہتے ہیں
گر ملے اک بار مجھ کو وہ پری وش کج ادا
اس کو ظاہر کر دکھاؤں دل کا مطلب دل کی بات
وہ آنکھیں وہ زلفیں وہ رخ وہ غمزے وہ ناز و ادا
کس نے اسیر دام کیا ہم خود ہی اسیر دام ہوئے
بتا کر شوخیاں اس کو ادا کی
ڈبوئی ہم نے قسمت مدعا کی
گدائی میں ملی شاہی مجھے اس کی عنایت سے
بھلا کیوں کر ادا ہو شکر اس کے لطف بے حد کا
ادا غمزے کرشمے عشوے ہیں بکھرے ہوئے ہر سو
صف مقتل میں یا قاتل ہے یا انداز قاتل ہے
مارا ہے بیاںؔ کو جن نے اے شوخ
کیا جانیے کون سی ادا تھی
آنسو بہا کے دیدۂ جادو طراز سے
دکھلا کے اک ادا نگۂ فتنہ ساز سے
ہر ناز ترا یہ کہتا ہے ہر ایک ادا سے ظاہر ہے
کہنے کو ترا عاشق ہوں مگر تو اور نہیں میں اور نہیں
دل ربائی کا بھی کچھ کچھ ڈھب انہیں آنے لگا
بات مطلب کی اشاروں میں ادا کرنے لگے
ہے ہر ادا میں اس کی اک جذب کبریائی
تصویر سے ہے ظاہر انداز دل ربائی
ہر صورت مرگ و زیست اپنی ہے جدا
اس لب نے جلایا تھا ادا نے مارا
کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
کسی کی تیغ ادا نے قضا کا کام کیا
ہمیں تمام کیا اپنا خوب نام کیا
ادا و ناز قاتل ہوں کبھی انداز بسمل ہوں
کہیں میں خندۂ گل ہوں کہیں سوز عنادل ہوں
عشق وہی تڑپ وہی حسن وہی ادا وہی
حسن کی ابتدا وہی عشق کی انتہا وہی
ہر ادا ناز میں ہے نوک چوک اس کے فراقؔ
کھب گئی جی میں ہمارے یار کی بانکی طرح
میں نے چھیڑا تو کس ادا سے کہا
کچھ سنو گے مری زباں سے آج
نرالے کی نرالی ہر ادا ہے
جدھر دیکھو ادھر جلوہ نما ہے
عشق سے پھر خطرۂ ترک وفا ہونے لگا
پھر فریب حسن سرگرم ادا ہونے لگا
مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں
عشق تیرا جو اے دل ربا ہو گیا
تھا جو قسمت کا لکھا ادا ہو گیا
خود ادا مرتی ہے جس پر وہ ادا کچھ اور ہے
ہے وفا بھی جس پہ صدقے وہ جفا کچھ اور ہے
یہ جاننے کو کہ ہم کس ادا پہ مرتے ہیں
جہاں میں تیری ہرہر ادا کا نام ہوا
وہ رہے خوش ہم سے مرداںؔ اور کبھی نا خوش رہے
دل میں ہم کو ہر ادا ان کی مگر بھاتی رہی
تجھے دیکھ او بت خوش ادا پھری آنکھ ساری خدائی سے
وہ جو یاد رہتی تھی صورتیں انہیں صاف دل سے بھلا دیا
کچھ بھیگی تالیں ہولی کی کجھ ناز ادا کے ڈھنگ بھرے
دل بھولے دیکھ بہاروں کو اور کانوں میں آہنگ بھرے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere