Font by Mehr Nastaliq Web

امید پر اشعار

ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی

ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے

بیدم شاہ وارثی

اے چشم تمنا تری امید بر آئے

اٹھتا ہے نقاب رخ جانانہ مبارک

بیدم شاہ وارثی

دل میں جو رہتے تھے امید کی دنیا ہو کر

وہ چلے جاتے ہیں کیوں داغ تمنا ہو کر

حیرت شاہ وارثی

ان سے امید وصل اے توبہ

وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے

آسی غازیپوری

امید نہیں اب کشتئ دل ساحل پہ سلامت جا پہنچے

دریائے الم بھی باڑھ پہ ہے اشکوں کی جدا طغیانی ہے

احقر بہاری

بتوں سے ہم حصول صبر کی امید کیوں رکھیں

یہ کیا دیں گے خدا کے پاس سے خود ناصبور آئے

مضطر خیرآبادی

نہ تھی امید ہمدردی کی جن سے

وہی تقدیر سے ہمدرد نکلے

پرنم الہ آبادی

ڈرتا ہی رہے انساں اس سے امید گر ہے بخشش کی

ہیں نام اسی کے یہ دونوں غفار بھی ہے قہار بھی ہے

احقر بہاری

عزیزوں سے امید مضطرؔ فضول

توقع کی دنیا فنا ہو گئی

مضطر خیرآبادی

ہاتھ سے عشق کے بچنے کی تو امید نہیں

سینہ افگار ہے دل خوں ہے جگر پانی ہے

آشنا پھلواروی

دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس

اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا

جگر مرادآبادی

کوئی امید رہائی کی نہ تھی صبرؔ مجھے

ان کی زلفوں سے مقدر میں جو تھا دل نکلا

صبر لکھنوی

گیا فرقت کا رونا ساتھ امید و تمنا کے

وہ بیتابی ہے اگلی سی نہ چشم خوں چکاں میری

راقم دہلوی

کثرت امید بھی عیش آفریں ہونے لگی

انتظار یار بھی راحت فزا ہونے لگا

حسرت موہانی

زیست میری اور یہ ایام فراق

اے امید وصل تیرا کام ہے

میکش اکبرآبادی

میں ہمیشہ اسیر الم ہی رہا مرے دل میں سدا تیرا غم ہی رہا

مرا نخل امید قلم ہی رہا میرے رونے کا کوئی ثمر نہ ملا

محمد اکبر وارثی

تجھی سے نقش ناکامی میں ہیں امید کے جلوے

شب غم ہے قضا کے بھیس میں میرا مسیحا تو

مضطر خیرآبادی

بڑی درگاہ کا سائل ہوں حسرتؔ

بڑی امید ہے میری بڑا دل

حسرت موہانی

سکون قلب کی امید اب کیا ہو کہ رہتی ہے

تمنا کی دو چار اک ہر گھڑی برق بلا مجھ سے

حسرت موہانی

فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر

واں خون کی ہوس ہے نہیں آرزوئے شیر

احسن اللہ خاں بیان

اب تو نظر میں دولت کونین ہیچ ہے

جب تجھ کو پا لیا دل امیدوار نے

بیدار شاہ وارثی

قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا

لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا

پرنم الہ آبادی

آرزو دین ودنیا اب نہیں بہرامؔ کچھ

پر مرا نکلے امید رحمت یزداں میں دم

بہرام جی

یاس و امید یوں رہیں راہ طلب میں ساتھ ساتھ

چار قدم ہٹا دیا چار قدم بڑھا دیا

ذکی وارثی

اٹھے گا یہاں پھر نہ کبھی شور تمنا

دل بیچ یہی یاس اب امید کرے ہے

غلام نقشبند سجادؔ

میں تری امید میں ہستی مٹا کر مٹ گیا

اب تو اک ٹھوکر لگا دے پائے جانانہ مجھے

مضطر خیرآبادی

کھلنے لگی اگر کوئی امید کی کلی

برق الم تڑپ کے گری اور جلا دیا

ولی وارثی

وفا کی ہو کسی کو تجھ سے کیا امید او ظالم

کہ اک عالم ہے کشتہ تیری طرز بے وفائی کا

ابراہیم عاجزؔ

متعلقہ موضوعات

بولیے