ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی
ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے
ان سے امید وصل اے توبہ
وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے
اے چشم تمنا تری امید بر آئے
اٹھتا ہے نقاب رخ جانانہ مبارک
دل میں جو رہتے تھے امید کی دنیا ہو کر
وہ چلے جاتے ہیں کیوں داغ تمنا ہو کر
بتوں سے ہم حصول صبر کی امید کیوں رکھیں
یہ کیا دیں گے خدا کے پاس سے خود ناصبور آئے
امید نہیں اب کشتئ دل ساحل پہ سلامت جا پہنچے
دریائے الم بھی باڑھ پہ ہے اشکوں کی جدا طغیانی ہے
عزیزوں سے امید مضطرؔ فضول
توقع کی دنیا فنا ہو گئی
دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا
ہاتھ سے عشق کے بچنے کی تو امید نہیں
سینہ افگار ہے دل خوں ہے جگر پانی ہے
نہ تھی امید ہمدردی کی جن سے
وہی تقدیر سے ہمدرد نکلے
ڈرتا ہی رہے انساں اس سے امید گر ہے بخشش کی
ہیں نام اسی کے یہ دونوں غفار بھی ہے قہار بھی ہے
تجھی سے نقش ناکامی میں ہیں امید کے جلوے
شب غم ہے قضا کے بھیس میں میرا مسیحا تو
بڑی درگاہ کا سائل ہوں حسرتؔ
بڑی امید ہے میری بڑا دل
سکون قلب کی امید اب کیا ہو کہ رہتی ہے
تمنا کی دو چار اک ہر گھڑی برق بلا مجھ سے
فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر
واں خون کی ہوس ہے نہیں آرزوئے شیر
اب تو نظر میں دولت کونین ہیچ ہے
جب تجھ کو پا لیا دل امیدوار نے
قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا
لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا
میں تری امید میں ہستی مٹا کر مٹ گیا
اب تو اک ٹھوکر لگا دے پائے جانانہ مجھے
وفا کی ہو کسی کو تجھ سے کیا امید او ظالم
کہ اک عالم ہے کشتہ تیری طرز بے وفائی کا
اٹھے گا یہاں پھر نہ کبھی شور تمنا
دل بیچ یہی یاس اب امید کرے ہے
کثرت امید بھی عیش آفریں ہونے لگی
انتظار یار بھی راحت فزا ہونے لگا
زیست میری اور یہ ایام فراق
اے امید وصل تیرا کام ہے
گیا فرقت کا رونا ساتھ امید و تمنا کے
وہ بیتابی ہے اگلی سی نہ چشم خوں چکاں میری
میں ہمیشہ اسیر الم ہی رہا مرے دل میں سدا تیرا غم ہی رہا
مرا نخل امید قلم ہی رہا میرے رونے کا کوئی ثمر نہ ملا