عبدالہادی کاوش کے اشعار
یہی ایمان ہے اپنا یہی اپنا عمل کاوشؔ
صنم کے اک اشارے پر ہر اک شے کو لٹا دینا
جسم کا ریشہ ریشہ مچلے درد محبت فاش کرے
عشق میں کاوشؔ خاموشی تو سخنوری سے مشکل ہے
اسیر گیسوئے پرخم بنائے پہلے عاشق کو
نکالے پھر وہ پیچ و خم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
تو کو بتاؤں سن رے سکھی ری مرشد پیا کی صورت کس کی
یہی ہے صورت شیر خدا کی بانکی چتون کاری اکھیاں
چاند سا مکھڑا اس نے دکھا کر پھر نیناں کے بان چلا کر
سنوریا نے بیچ بجریا لوٹ لیو بس نردھن کو
اٹھ کے اندھیری راتوں میں ہم تجھ کو پکارا کرتے ہیں
ہر چیز سے نفرت ہم کو ہوئی ہم جنت فردا بھول گئے
آگ لگی وہ عشق کی سر سے میں پاؤں تک جلا
فرط خوشی سے دل مرا کہنے لگا جو ہو سو ہو
یہ آداب محبت ہے ترے قدموں پہ سر رکھ دوں
یہ تیری اک ادا ہے پھیر کر منہ مسکرا دینا
دونوں جانب اگر آرزو وصل کی کوئی طوفاں اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق انہیں گدگدائے تو وہ کیا کریں حسن مجھ کو بلائے تو میں کیا کروں
اپنے ہاتھوں مہندی لگائی مانگ بھی میں نے دیکھو سجائی
آئے پیا گھر رم جھم برسے جاؤ بتا دو ساون کو
تو لاکھ کرے انکار مگر باتوں میں تری کون آتا ہے
ایمان مرا یہ میرا یقیں تو اور نہیں میں اور نہیں
جیون کی الجھی راہوں میں جب گھور اندھیرا آتا ہے
ہاتھوں میں لئے روشن مشعل تو گرو ہمارے ملتے ہیں
اس پاپ کی نگری میں ہر اور اندھیرا ہے
اجیار میں بس وہ ہے جو تجھ کو پیا چاہے
دین و ایماں کیا اور کیا ہے دھرم کھول دیا اب تو نام خدا نے بھرم
چشم مرشد نے کی ایسی جادوگری کچھ بھی مجھ کو نہ بھائے تو میں کیا کروں
ساغر شراب عشق کا پی ہی لیا جو ہو سو ہو
سر اب کٹے یا گھر لٹے فکر ہی کیا جو ہو سو ہو
چاند سا مکھڑا اس نے دکھا کر پھر نیناں کے بان چلا کر
سنوریا نے بیچ بجریا لوٹ لیو اس نردھن کو
اٹھ کے اندھیری راتوں میں ہم تجھ کو پکارا کرتے ہیں
ہر چیز سے نفرت ہم کو ہوئی ہم جنت فردا بھول گئے
جا کو کوئی پکڑے تو کیسے کام کرت ہے نظر نہ آئے
چپکے چپکے سیندھ لگاوے دن ہووے یا اندھیری رتیاں
آکاش کی جگ مگ راتوں میں جب چاند ستارے ملتے ہیں
دل دے دے صنم کو تو بھی یہ قدرت کے اشارے ملتے ہیں
علم اور فضل کے دین و ایمان کے عقل پر میری کاوشؔ تھے پردے پڑے
سارے پردے اٹھا کر کوئی اب مجھے اپنا جلوہ دکھائے تو میں کیا کروں
مل گیا راہ میں مجھ کو جب وہ صنم لاکھ دل کو سنبھالا کیا ضبط غم
دل میں حسرت لئے چند آنسو مگر دفعتاً مسکرائے تو میں کیا کروں
چلو آؤ کاوشؔ کہ کاندھا لگائیں
علی کی خدا نے اٹھائی ہے ڈولی
سرور و کیف کا نغمہ غم و اندوہ کا نوحہ
طلسم زیست کی سرگم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
مل گیا راہ میں مجھ کو جب وہ صنم لاکھ دل کو سنبھالا کیا ضبط غم
دل میں حسرت لیے چند آنسو مگر دفعتاً مسکرائے تو میں کیا کروں
علی تو کو جانوں خدا تو کو جانوں
میں رکھتی ہوں جگ سے طبیعت نیاری
کوچے میں ترے اے جان غزل یہ راز کھلا ہم پر آ کر
غم بھی تو عنایت ہے تیری ہم غم کا مداوا بھول گئے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere