خواجہ میر درد کے اشعار
دیکھیے اب کے غم سے جی میرا
نہ بچے گا بچے گا کیا ہوگا
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا
ایک ایمان ہے بساط اپنی
نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے
ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے
باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں
گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں
حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا
خدا جانے کیا ہوگا انجام اس کا
میں بے صبر اتنا ہوں وہ تند خو ہے
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں
عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے
پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے
کیا سیر سب ہم نے گلزار دنیا
گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے
آ پھنسوں میں بتوں کے دام میں یوں
دردؔ یہ بھی خدا کی قدرت ہے
ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا
ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم
وابستہ ہے ہمیں سے گر جبر ہے و گر قدر
مجبور ہیں تو ہم ہیں مختار ہیں تو ہم ہیں
اپنے ہاتھوں کے بھی میں زور کا دیوانہ ہوں
رات دن کشتی ہی رہتی ہے گریبان کے ساتھ
چو نے خالی شدم از آرزوہا لیک عشق او
بگوشم می دمد حرفے کہ من ناچار می نالم
پوچھا میں درد سے کہ بتا تو سہی مجھے
اے خانماں خراب ہے تیرے بھی گھر کہیں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere