Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آسمان پر اشعار

دعا لب پہ آتی ہے دل سے نکل کر

زمیں سے پہنچتی ہے بات آسماں تک

ذہین شاہ تاجی

جب قدم رکھا زمیں پر آسماں پر جا پڑا

بارہا ہم نے کیا ہے امتحان کوئے دوست

امیر مینائی

اس سرور دیں پر جان فدا کی جس نے نماز عشق ادا

تلواروں کی جھنکاروں میں اور تیروں کی بوچھاروں میں

عمرؔ وارثی

زمیں کے سر پہ کھلا آسمان رہنے دے

خدا کے واسطے امن و امان رہنے دے

ڈاکٹر معید جاوید

زمیں ہے آسماں بھی اس کے آگے

عجب برتر مدینے کی زمیں ہے

امیر مینائی

زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے

خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے

بیدم شاہ وارثی

وہ چمکا چاند چھٹکی چاندنی تارے نکل آئے

وہ کیا آئے زمیں پر آسماں نے پھول برسائے

ذہین شاہ تاجی

یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا

غبار آسا نہیں کہیں کا نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا

امیر مینائی

اگر چاہوں نظام دہر کو زیر و زبر کر دوں

مرے جذبات کا طوفاں زمیں سے آسماں تک ہے

ولی وارثی

مجھے ناشاد کر کے آسماں راحت نہ پائے گا

مجھے برباد کر کے خاک چھانے گی زمیں برسوں

مضطر خیرآبادی

شب غم دیکھتا ہوں اٹھ کے ہر بار

وہی ہے یا کوئی اور آسماں ہے

بے نظیر شاہ وارثی

ذرے کو لے کے پھرتا ہے یہ آسمان میں

ہے عشق سے عظیم کوئی شے جہان میں

امن اقبال

بس میں ترے زمیں ہے قبضے میں آسماں ہے

اے دو جہاں کے مالک میرا نشاں کہاں ہے

حیرت شاہ وارثی

باغ عالم میں ہمیں پھولنے پھلنے نہ دیا

آسماں نے کوئی ارماں نکلنے نہ دیا

کوثر خیرآبادی

رائیگاں حسرتؔ نہ جائے گا مرا مشت غبار

کچھ زمیں لے جائے گی کچھ آسماں لے جائے گا

حسرت موہانی

وہ کیوں بگڑے مرے شور فغاں سے

شکایت ان سے تھی یا آسماں سے

حسرت موہانی

ریاضؔ موت ہے اس شرط سے ہمیں منظور

زمیں ستائے نہ مرنے پہ آسماں کی طرح

ریاض خیرآبادی

وہ لہر ہوں جو پیاس بجھائے زمین کی

چمکے جو آسماں پہ وہ پتھر نہیں ہوں میں

مظفر وارثی

سرگرم قتل کب بت نا مہرباں نہیں

پیاسا مرے لہو کا فقط آسماں نہیں

کوثر خیرآبادی

جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں

آسماں پر دماغ رکھتے ہیں

احسن اللہ خاں بیان

نکل کر تیرے کوچے سے گزر میرا جہاں ہوگا

ہزاروں آسماں ہوں گے وہاں ایک آسماں ہوگا

ریاض خیرآبادی

یہ آہیں ہیں میری یہ نالے ہیں میرے

جنہیں آسماں آسماں دیکھتے ہیں

افقر موہانی

جب نظر اس کی پڑی ہم آسماں سے گر پڑے

اس کے پھرتے ہی جہاں یہ ہم سے سارا پھر گیا

کشن سنگھ عارفؔ

اٹکی ہوئی ہے کوئی نظر آسمان پر

اے شب ذرا سی دیر ٹھہر آسمان پر

حسیب جمال

دل تو اور ہی مکاں میں پھرتا ہے

نہ زمیں ہے نہ آسماں ہے یاد

خواجہ رکن الدین عشقؔ

کوئے جاناں بھی نہ چھوڑا خانہ ویرانی کے بعد

دیکھنا ہے اب کہاں یہ آسماں لے جائے گا

اوگھٹ شاہ وارثی

دیکھ کر آسماں کو ہم تو زمیں میں گڑ گئے

جب نہ کہیں جگہ ملی آپ کی بزم ناز میں

جگرؔ وارثی

تری راہ میں جو فنا ہوئے کہوں کیا جو ان کا مقام ہے

نہ یہ آسمان ہے نہ یہ زمیں نہ یہ صبح ہے نہ یہ شام ہے

عرش گیاوی

آرام ہو سکون ہو سارے جہان کو

جنبش نہ ہو زمیں کی طرح آسمان کو

ریاض خیرآبادی

عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں

زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں

جگر مرادآبادی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

بولیے