دعا لب پہ آتی ہے دل سے نکل کر
زمیں سے پہنچتی ہے بات آسماں تک
جب قدم رکھا زمیں پر آسماں پر جا پڑا
بارہا ہم نے کیا ہے امتحان کوئے دوست
اس سرور دیں پر جان فدا کی جس نے نماز عشق ادا
تلواروں کی جھنکاروں میں اور تیروں کی بوچھاروں میں
زمیں کے سر پہ کھلا آسمان رہنے دے
خدا کے واسطے امن و امان رہنے دے
زمیں ہے آسماں بھی اس کے آگے
عجب برتر مدینے کی زمیں ہے
زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے
وہ چمکا چاند چھٹکی چاندنی تارے نکل آئے
وہ کیا آئے زمیں پر آسماں نے پھول برسائے
یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا
مجھے ناشاد کر کے آسماں راحت نہ پائے گا
مجھے برباد کر کے خاک چھانے گی زمیں برسوں
شب غم دیکھتا ہوں اٹھ کے ہر بار
وہی ہے یا کوئی اور آسماں ہے
بس میں ترے زمیں ہے قبضے میں آسماں ہے
اے دو جہاں کے مالک میرا نشاں کہاں ہے
باغ عالم میں ہمیں پھولنے پھلنے نہ دیا
آسماں نے کوئی ارماں نکلنے نہ دیا
رائیگاں حسرتؔ نہ جائے گا مرا مشت غبار
کچھ زمیں لے جائے گی کچھ آسماں لے جائے گا
وہ کیوں بگڑے مرے شور فغاں سے
شکایت ان سے تھی یا آسماں سے
ریاضؔ موت ہے اس شرط سے ہمیں منظور
زمیں ستائے نہ مرنے پہ آسماں کی طرح
وہ لہر ہوں جو پیاس بجھائے زمین کی
چمکے جو آسماں پہ وہ پتھر نہیں ہوں میں
سرگرم قتل کب بت نا مہرباں نہیں
پیاسا مرے لہو کا فقط آسماں نہیں
جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
آسماں پر دماغ رکھتے ہیں
نکل کر تیرے کوچے سے گزر میرا جہاں ہوگا
ہزاروں آسماں ہوں گے وہاں ایک آسماں ہوگا
یہ آہیں ہیں میری یہ نالے ہیں میرے
جنہیں آسماں آسماں دیکھتے ہیں
جب نظر اس کی پڑی ہم آسماں سے گر پڑے
اس کے پھرتے ہی جہاں یہ ہم سے سارا پھر گیا
دل تو اور ہی مکاں میں پھرتا ہے
نہ زمیں ہے نہ آسماں ہے یاد
کوئے جاناں بھی نہ چھوڑا خانہ ویرانی کے بعد
دیکھنا ہے اب کہاں یہ آسماں لے جائے گا
دیکھ کر آسماں کو ہم تو زمیں میں گڑ گئے
جب نہ کہیں جگہ ملی آپ کی بزم ناز میں
تری راہ میں جو فنا ہوئے کہوں کیا جو ان کا مقام ہے
نہ یہ آسمان ہے نہ یہ زمیں نہ یہ صبح ہے نہ یہ شام ہے
آرام ہو سکون ہو سارے جہان کو
جنبش نہ ہو زمیں کی طرح آسمان کو
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere