حیرت شاہ وارثی کے اشعار
فصل بہار میں تو قید قفس میں گزری
چھوٹے جو اب قفس سے تو موسم خزاں ہے
مری حیرتؔ محبت ہو محبت آپ کی حیرتؔ
یہی آئینہ داری آخرش روز یقیں آئے
دل میں جو رہتے تھے امید کی دنیا ہو کر
وہ چلے جاتے ہیں کیوں داغ تمنا ہو کر
مدت میں جلوہ گر ہوئے بالائے بام وہ
اس چاند کو میں دیکھوں کہ دیکھوں قمر کو میں
بس میں ترے زمیں ہے قبضے میں آسماں ہے
اے دو جہاں کے مالک میرا نشاں کہاں ہے
ہر ذرہ اس کی منزل صحرا ہو یا ہو گلشن
کیوں بے نشاں رہے وہ تیرا جو بے نشاں ہے
کشتیٔ عمر مری غم کے ہے طوفاں میں گھری
کھینچ لو اب اسے دریا کا کنارا ہو کر
قسمت کی نارسائیاں بعد فنا رہیں
مر کے بھی دفن ہو نہ سکا کوئے یار میں
میرا گھر گھر نہیں تم بن یہ سیہ خانہ ہے
اب سیہ خانے میں آ جاؤ اجالا ہو کر
آپ کی تصویر ہر دم دل سے ہم آغوش ہے
یعنی وہ بے ہوش ہوں قربان جس پر ہوش ہے
سینے میں بن کے حسرت اک تیر بے کماں ہے
جب تک رہے یہ دل میں انسان نیم جاں ہے
حیرتؔ کہ تجھ کو حیرت دیدار ہو نصیب
آ دیکھ لے تو شان خدا حسن یار میں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere