Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Muztar Khairabadi's Photo'

مضطر خیرآبادی

1856 - 1927 | گوالیار, بھارت

ہندوستان کے معروف خیرآبادی شاعر اور جاں نثار اختر کے والد

ہندوستان کے معروف خیرآبادی شاعر اور جاں نثار اختر کے والد

مضطر خیرآبادی کے اشعار

باعتبار

وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں

نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں

مری تربت پہ خود ساقی نے آ کر یہ دعا مانگی

خدا بخشے بہت اچھی گزاری مے پرستی میں

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

کسی کام میں جو نہ آ سکی میں وہ ایک مشت غبار ہوں

محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے

خدا میرا خدا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری

تم سلامت رہو قیامت تک

اور قیامت خدا کرے کہ نہ ہو

میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی

روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے

کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا

کہ وہ خود رنگ بن کر چہرۂ گل سے نکل آیا

نہیں دیتا جو مے اچھا نہ دے تیری خوشی ساقی

پیالے کچھ ہمیشہ طاق پر رکھے نہیں رہتے

مضطرؔ اس نے سوال الفت پر

کس ادا سے کہا خدا نہ کرے

تم اپنی زلف کھولو پھر دل پر داغ چمکے گا

اندھیرا ہو تو کچھ کچھ شمع کی آنکھوں میں نور آئے

جدائی میں یہ دھڑکا تھا کہ آنچ ان پر نہ آ جائے

بجھائی آنسوؤں سے ہم نے آہ آتشیں برسوں

طبیعت جو صبر آزما ہو گئی

جفا رفتہ رفتہ وفا ہو گئی

محبت خوف رسوائی کا باعث بن ہی جاتی ہے

طریق عشق میں اپنوں سے پردا ہو ہی جاتا ہے

اس سے کہہ دو کہ وہ جفا نہ کرے

کہیں مجھ سا اسے خدا نہ کرے

یہ وہ بدلا ہے سنگ آستاں کی جبہ سائی کا

کہ آئے اور میری قبر پر اپنی جبیں رکھ دی

دوئی جا کے رنگ صفا رہ گیا

خودی مٹتے مٹتے خدا رہ گیا

وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں

نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں

وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی

وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے

قناعت دوسرے کے آسرے کا نام ہے مضطرؔ

خدا ہے جو کوئی حد توکل سے نکل آیا

محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے

مگر پھر دشمن ایمان و دیں معلوم ہوتی ہے

نہیں یہ کہتا میں تجھ سے قاصد کہ ان سے بے وقت حال کہہ دے

مگر جو پہلو نظر سے گزرے تو اس سے پہلو تہی نہ کرنا

خدا جانے مری مٹی ٹھکانے کب لگے مضطرؔ

بہت دن سے جنازہ کوچۂ قاتل میں رکھا ہے

بتوں سے ہم حصول صبر کی امید کیوں رکھیں

یہ کیا دیں گے خدا کے پاس سے خود ناصبور آئے

بگاڑ قسمت کا کیا بتاؤں جو ساتھ میرے لگی ہوئی ہے

کہیں کہیں سے کٹی ہوئی ہے کہیں کہیں سے مٹی ہوئی ہے

ہماری تربت پہ تم جو آنا تو ساتھ اغیار کو نہ لانا

خوشی کے صدمے ہمیں نہ دینا ہمارے غم کی خوشی نہ کرنا

ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا

بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا

کسی بت کی ادا نے مار ڈالا

بہانے سے خدا نے مار ڈالا

خدا جانے مری مٹی ٹھکانے کب لگے مضطرؔ

بہت دن سے جنازہ کوچۂ قاتل میں رکھا ہے

محبت میں جدائی کا مزا مضطرؔ نہ جانے دوں

وہ بلبل ہوں کہ گل پاؤں تو پتا درمیاں رکھوں

اس سے پہلے آنکھ کی پتلی کی کیا اوقات تھی

تیرے نقطہ دیتے ہی کیا کیا نظر آنے لگا

مجھے ناشاد کر کے آسماں راحت نہ پائے گا

مجھے برباد کر کے خاک چھانے گی زمیں برسوں

اے عشق عطا کر دے ایسا مجھے کاشانہ

جو کعبے کا کعبہ ہو بت خانے کا بت خانہ

تلاش بت میں مجھ کو دیکھ کر جنت میں سب بولے

یہ کافر کیوں چلا آیا مسلمانوں کی بستی میں

اک راز ہے اے مضطرؔ تربت کا اندھیرا بھی

آئی ہے پئے ماتم کعبے کی سیہ پوشی

آپ آئیں تو سہی ٹھوکر لگانے کے لیے

میری تربت دیکھ کر آنسو رواں ہو جائیں گے

خون دل جتنا تھا سارا وقف حسرت کر دیا

اس قدر رویا کہ میری آنکھ میں آنسو نہیں

میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی

روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے

وہ آئے ہیں ذرا میں بات کر لوں

اجازت اے دل درد آشنا دے

کبھو ہم سے بھی وفا کیجئے گا

یا یہی جور و جفا کیجئے گا

تجھی سے نقش ناکامی میں ہیں امید کے جلوے

شب غم ہے قضا کے بھیس میں میرا مسیحا تو

خدا جانے مری مٹی ٹھکانے کب لگے مضطرؔ

بہت دن سے جنازہ کوچۂ قاتل میں رکھا ہے

مرے قاتل کی جلدی نے مجھے ناکام ہی رکھا

تمنا دیکھنے کی بھی نہ نکلی تیز دستی میں

امتحاں گاہ وفا میں تو بھی چل میں بھی چلوں

آج اے شمشیر قاتل میں نہیں یا تو نہیں

باغ سے دور خزاں سر جو ٹپکتا نکلا

قلب بلبل نے یہ جانا میرا کانٹا نکلا

جاگتے کا خواب سمجھو ورنہ دنیا ہے بھی کیا

اس کی حسرت ہے بھی کیا اس کی تمنا ہے بھی کیا

ترک ہستی سے مری خانہ بدوشی مٹ گئی

لا مکاں پہنچا تو گھر اپنا نظر آنے لگا

وہ تجلی جس نے دشت آرزو چمکا دیا

کچھ تو میرے دل میں ہے اور کچھ کف موسیٰ میں ہے

ساقی نے پس مردن پیاسا نہ مجھے چھوڑا

اک ابر کے ٹکڑے سے مے قبر پہ برسا دی

یہ کہہ کر خانۂ تربت سے ہم مے کش نکل بھاگے

وہ گھر کیا خاک پتھر ہے جہاں شیشے نہیں رہتے

تعلق تو اس گل سے چھوڑا مگر

کلیجے میں کانٹا چبھا رہ گیا

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے