Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Jigar Moradabadi's Photo'

جگر مرادآبادی

1890 - 1960 | مرادآباد, بھارت

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

جگر مرادآبادی کے اشعار

باعتبار

میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی

تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں

میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں

ترا درد درد تنہا مرا غم غم زمانہ

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے

شب وصل کیا مختصر ہو گئی

ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی

اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس

درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

خدایا خیر کرنا نبض بیمار محبت کی

کئی دن سے بہت برہم مزاج ناتوانی ہے

آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن

بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے

قاتل رہبر قاتل رہزن

دل سا دوست نہ دل سا دشمن

خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے

ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی

دل گیا رونق حیات گئی

غم گیا ساری کائنات گئی

جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی

اس کی جانب خدا نہیں ہوتا

ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک

ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا

عشق کو بے نقاب ہونا تھا

آپ اپنا جواب ہونا تھا

عشق نے توڑی سر پہ قیامت زور قیامت کیا کہیے

سننے والا کوئی نہیں روداد محبت کیا کہیے

میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں

مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

انہیں آنسو سمجھ کر یوں نہ مٹی میں ملا ظالم

پیام درد و دل ہے اور آنکھوں کی زبانی ہے

دل کہ جس پر ہیں نقش رنگارنگ

اس کو سادہ کتاب ہونا تھا

کئے مجھ پہ احساں غم یار نے

ہمیشہ کو نیچی نظر ہو گئی

ہر شے کو میری خاطر ناشاد کے لیے

آئینۂ جمال بنا کر چلے گئے

ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج

عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں

مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا

ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر

جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق

دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا

سوز غم دیکھ نہ برباد ہو حاصل میرا

دل کی تصویر ہے ہر آئینۂ دل میرا

ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری

کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس

اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا

عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں

بستیاں نکلیں جنہیں ویرانیاں سمجھا تھا میں

کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں

آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں

کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا

شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی

آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ

اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں

تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی

وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی

کرشما سازی حسن ازل ارے توبہ

مرا ہی آئینہ مجھ کو دکھا کے لوٹ لیا

ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی

آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی

بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں

توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

پیہم جو آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں

دولت ہے غم زکوٰۃ دئیے جا رہا ہوں میں

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں

کبھی شاخ سبزہ وبرگ پر کبھی غنچہ وگل وخار پر

میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر

واہ رے شوق شہادت کوئے قاتل کی طرف

گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں

آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں

روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں

پھول کھلے ہیں گلشن گلشن

لیکن اپنا اپنا دامن

مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند

خود حسن کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے

میرے عرض غم پہ وہ کہنا کسی کا ہائے ہائے

شکوۂ غم شیوۂ اہل وفا ہوتا نہیں

جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق

دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا

عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں

زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں

خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے

ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی

داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی

بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی

مسلسل غم و درد پچھتا رہا ہوں

پشیمانیوں کی پشیمانیاں ہیں

یہ نرم و ناتواں موجیں خودی کا راز کیا جانیں

قدم لیتے ہیں طوفاں عظمت ساحل سمجھتے ہیں

مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق

ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے