آسی غازیپوری کے اشعار
آرزو یہ ہے تمہارا آنچل آنکھوں سے لگے
کچھ سمجھتے ہو کہ ہم روتے ہوئے آتے ہیں کیوں
خدا سے ترا چاہنا چاہتا ہوں
میرا چاہنا دیکھ کیا چاہتا ہوں
کہاں ممکن ہے کس سے انتظار یار ہو مجھ سا
رہے گی پھر بھی یوں ہی مثل نرگس آنکھ وا کس کی
مل چکے اب ملنے والے خاک کے
قبر پر جا جا کے رویا کیجیے
وہ بکھرانے لگے زلفوں کو چہرے پر تو میں سمجھا
گھٹا میں چاند یا محمل میں لیلیٰ منہ چھپاتی ہے
درد دل کتنا پسند آیا اسے
میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی
پہچانتا وہ اب نہیں دشمن کو دوست سے
کس قید سے اسیر محبت رہا ہوا
نہ تم نے قدر کچھ عاشق کی جانی
بہت روؤ گے اب تم یاد کر کے
چھری بھی تیز ظالم نے نہ کر لی
بڑا بے رحم ہے قاتل ہمارا
اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا
اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا
جھوٹ کیوں کہتا ہے اے قاصد کہ وہ آتے نہیں
وہ اگر آتے نہیں ہم آپ میں آتے ہیں کیوں
گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا
سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا
حد نہ پوچھو ہماری وحشت کی
دل میں ہر داغ چشم آہو ہے
آسیؔ گریاں ملا محبوب سے
گل سے شبنم جس طرح رو کر ملے
کبھی آسیؔ سے ہم آغوش نہ دیکھا تجھ کو
اثر جذبۂ دل اہل محبت بھی نہیں
پاک بازی اپنی پیغام طلب تھی عشق میں
دھو کے داغ تہمت ہستی سفر درکار تھا
قد خم ہے گریباں گیر کنٹھا بن کے قاتل کا
مگر بے تابیٔ ذوق شہادت ہو تو ایسی ہو
غیر ظاہر نہ مظاہر کی حقیقت سمجھوں
اتنی تمییز میان حق و باطل دینا
خدا حافظ ہے اس گل کی کمر کا
غضب جھونکے چلے باد سحر کے
کل کی باتوں میں تو کچھ نرمی سی ہے
آج پھر قاصد روانا کیجیے
الٰہی بندھ رہی ہے آج گلشن میں ہوا کس کی
لیے پھرتی ہے خوشبو دم بدم باد صبا کس کی
سارے عالم میں تیری خوشبو ہے
اے میرے رشک گل کہاں تو ہے
گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا
سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا
خدا حافظ ہے اس گل کی کمر کا
غضب جھونکے چلے باد سحر کے
ان کو دعویٰ یوسفی آسیؔ
خواب میں بھی جو آ نہیں سکتے
مجھ سے بے مقدار کا دل اور جلوہ آپ کا
سچ ہے اے خورشید ہر ذرے میں گھر درکار تھا
اللہ رے تاریکی خورشید جدائی
ہے صبح میں اپنی شب دیجور کی صورت
شب وصال بیان غم فراق عبث
فضول ہے گلۂ زخم التیام کے بعد
ان کی حسرت کے سوا ہے کون اس میں دوسرا
دل کی خلوت میں بھی وہ عاشق سے شرماتے ہیں کیوں
داغ سوزاں چھوڑ کر عاشق نے لی راہ عدم
پسرو تم کو چراغ رہ گزر درکار تھا
وفور بے خودیٔ بزم مے نہ پوچھو رات
کوئی بجز نگۂ یار ہوشیار نہ تھا
ہم نے مانا دام گیسو میں نہیں آسیؔ اسیر
باغ میں نظارۂ سنبل سے گھبراتے ہیں کیوں
غم دنداں میں وہ لاغر ہوئے ہم
کہ ہیں تار نظر چشم گہر کے
چمن سینۂ پر داغ میں تیرا جلوہ
یار قابل ترے گل گشت کے جنت بھی نہیں
ترے کوچے کا رہنما چاہتا ہوں
مگر غیر کا نقش پا چاہتا ہوں
حور جنت ان سے کچھ بڑھ کر سہی
ایک دل کیا کیا تمنا کیجیے
کہاں دامن حسن عاشق سے اٹکا
گل داغ الفت میں کانٹا نہیں ہے
ہم ایسے غرق دریائے گنہ جنت میں جا نکلے
توان لطمۂ موج شفاعت ہو تو ایسی ہو
خدا حافظ ہے اس گل کی کمر کا
غضب جھونکے چلے باد سحر کے
اس کے کوچے میں کہاں کشمکش بیم و رجا
خوف دوزخ بھی نہیں خواہش جنت بھی نہیں
ابر دود دل جو گھر کو چھائے رہتا ہے میرے
رہتی ہے فرقت کی شب باہر ہی باہر چاندنی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere