Font by Mehr Nastaliq Web
Aasi Ghazipuri's Photo'

آسی غازیپوری

1834 - 1917 | غازی پور, بھارت

چودھویں صدی ہجری کے ممتاز صوفی شاعر اور خانقاہ رشیدیہ جون پور کے سجادہ نشیں

چودھویں صدی ہجری کے ممتاز صوفی شاعر اور خانقاہ رشیدیہ جون پور کے سجادہ نشیں

آسی غازیپوری کے اشعار

باعتبار

آرزو یہ ہے تمہارا آنچل آنکھوں سے لگے

کچھ سمجھتے ہو کہ ہم روتے ہوئے آتے ہیں کیوں

کہاں ممکن ہے کس سے انتظار یار ہو مجھ سا

رہے گی پھر بھی یوں ہی مثل نرگس آنکھ وا کس کی

خدا سے ترا چاہنا چاہتا ہوں

میرا چاہنا دیکھ کیا چاہتا ہوں

درد دل کتنا پسند آیا اسے

میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی

مل چکے اب ملنے والے خاک کے

قبر پر جا جا کے رویا کیجیے

وہ بکھرانے لگے زلفوں کو چہرے پر تو میں سمجھا

گھٹا میں چاند یا محمل میں لیلیٰ منہ چھپاتی ہے

حد نہ پوچھو ہماری وحشت کی

دل میں ہر داغ چشم آہو ہے

ان سے امید وصل اے توبہ

وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے

نہ تم نے قدر کچھ عاشق کی جانی

بہت روؤ گے اب تم یاد کر کے

چھری بھی تیز ظالم نے نہ کر لی

بڑا بے رحم ہے قاتل ہمارا

سارے عالم میں تیری خوشبو ہے

اے میرے رشک گل کہاں تو ہے

پہچانتا وہ اب نہیں دشمن کو دوست سے

کس قید سے اسیر محبت رہا ہوا

پاک بازی اپنی پیغام طلب تھی عشق میں

دھو کے داغ تہمت ہستی سفر درکار تھا

اس کے کوچے میں کہاں کشمکش بیم و رجا

خوف دوزخ بھی نہیں خواہش جنت بھی نہیں

ان کو دعویٰ یوسفی آسیؔ

خواب میں بھی جو آ نہیں سکتے

کبھی آسیؔ سے ہم آغوش نہ دیکھا تجھ کو

اثر جذبۂ دل اہل محبت بھی نہیں

آسیؔ گریاں ملا محبوب سے

گل سے شبنم جس طرح رو کر ملے

اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا

اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا

جھوٹ کیوں کہتا ہے اے قاصد کہ وہ آتے نہیں

وہ اگر آتے نہیں ہم آپ میں آتے ہیں کیوں

گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا

سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا

خدا حافظ ہے اس گل کی کمر کا

غضب جھونکے چلے باد سحر کے

تموج بحر غم کا دیکھتے ہو

حباب دل ہے دریا دل ہمارا

گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا

سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا

شب وصال بیان غم فراق عبث

فضول ہے گلۂ زخم التیام کے بعد

کل کی باتوں میں تو کچھ نرمی سی ہے

آج پھر قاصد روانا کیجیے

الٰہی بندھ رہی ہے آج گلشن میں ہوا کس کی

لیے پھرتی ہے خوشبو دم بدم باد صبا کس کی

ان کی حسرت کے سوا ہے کون اس میں دوسرا

دل کی خلوت میں بھی وہ عاشق سے شرماتے ہیں کیوں

حور جنت ان سے کچھ بڑھ کر سہی

ایک دل کیا کیا تمنا کیجیے

ہو گیا دام خوف غم سے رہا

جو تمہارا اسیر گیسو ہے

قد خم ہے گریباں گیر کنٹھا بن کے قاتل کا

مگر بے تابیٔ ذوق شہادت ہو تو ایسی ہو

غیر ظاہر نہ مظاہر کی حقیقت سمجھوں

اتنی تمییز میان حق و باطل دینا

چمن سینۂ پر داغ میں تیرا جلوہ

یار قابل ترے گل گشت کے جنت بھی نہیں

ترے کوچے کا رہنما چاہتا ہوں

مگر غیر کا نقش پا چاہتا ہوں

مجھ سے بے مقدار کا دل اور جلوہ آپ کا

سچ ہے اے خورشید ہر ذرے میں گھر درکار تھا

رشک گلشن ہو الٰہی یہ قفس

یہ صدا مرغ گرفتار کی ہے

ابر دود دل جو گھر کو چھائے رہتا ہے میرے

رہتی ہے فرقت کی شب باہر ہی باہر چاندنی

کہاں دامن حسن عاشق سے اٹکا

گل داغ الفت میں کانٹا نہیں ہے

ہم ایسے غرق دریائے گنہہ جنت میں جا نکلے

توان لطمۂ‌ موج شفاعت ہو تو ایسی ہو

خدا حافظ ہے اس گل کی کمر کا

غضب جھونکے چلے باد سحر کے

پل بھی ہے فخر جونپور آسیؔ

خواب گاہ جناب شیخو ہے

اس کے کوچے میں کہاں کشمکش بیم و رجا

خوف دوزخ بھی نہیں خواہش جنت بھی نہیں

طلب راہ خدا میں لیکن

پیروی حیدر کرار کی ہے

ہو گیا دام خوف غم سے رہا

جو تمہارا اسیر گیسو ہے

انہیں کی چھیڑ تھی اس رنگ میں بھی

خیال غیر تھا باطل ہمارا

گلو گیر ہے ان بھوؤں کا تصور

گریبان میں اپنے کنٹھا نہیں ہے

الٰہی آسیؔ بیتاب کس سے چھوٹا ہے

کہ خط میں روز قیامت لکھا ہے نام کے بعد

حوصلہ تیغ جفا کا رہ نہ جائے

آئیے خون تمنا کیجیے

متاع گرمیٔ بازار جاں ہے

وہ برق خرمن حاصل ہمارا

تمام ہوں ابھی جھگڑے یہ لن ترانی کے

دکھا دو جلوہ خدا را اگر کلام کے بعد

خفا صیاد ہے چیں بر جبیں گلچیں ہے کیا باعث

برا کس کا کیا تقصیر کی ہم نے بھلا کس کی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے